کرپشن اپنی اپنی


انسان کے اخلاقی عروج و زوال کا تعلق اُس کے سینے میں بسنے والے ایمان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اُس کی اخلاقیات کا اُس کی ظاہری عبادات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کیوں کہ اکثر اُس کی وہ عبادات اُسے بھی دھوکہ دے رہی ہوتی ہیں یا وہ خود دھوکہ کھا رہا ہوتا ہے اور ایسا اُس کے دماغ کے فتور کی وجہ سے ہوتا ہے جو اُس کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ تم تو ایک عبادت گزار انسان ہو کسی اور کا تم سے کیا مقابلہ۔

بہرحال اخلاقی پستی کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ انسان کسی مسجد کا امام ہے یا کسی کوٹھے کا دلال، وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہے یا موٹر سائیکل میکینک، سول انجینئر ہے یا دیہاڑی دار مزدور، کسی ادارے کا سربراہ ہے یا معمولی آفیسر، ملک کا کوئی بڑا سیاستدان ہے یا ایک عام ووٹر وہ کچھ بھی ہے اُس کی اخلاقیات اُس کے سینے میں موجود ایمان کے مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اور ایمان کی پختگی کا تعلق انسان کے مرتبے اور مقام سے تو ہرگز نہیں ہوتا کہیں ایک غریب مزدور کو ایک وقت کی روٹی کھا کر شکر کرتے دیکھتے ہیں تو کہیں گاڑیوں پر سفر کرنے والے امراء کو ایمان کا سودا کرتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اخلاقی تنزّلی اس قدر عام دیکھنے کو ملتی ہے کہ اب وہ ہمارے معیار کا حصہ بن چکی ہے اب چھوٹی موٹی بے ایمانی، ٹھگی، دھوکہ دہی، جھوٹ اور فریب تو ہماری شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں اور لوگ اسی طرح بلکہ ان کے ہوتے ہوئے ہمیں بڑی عزت سے پیش آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان باتوں کا ہونا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا، سوچا جاتا ہے کہ اتنا تو چلتا ہی ہے، اب فرشتے تو ہونے سے رہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات بالکل ویسی ہی ہے جیسے پچھلے دنوں ایک معروف سیاستدان کے پارلیمنٹ کے بیان کو عدالت میں کہا گیا کہ جی وہ تو سیاسی بیان تھا دوسرے لفظوں میں سیاست ایک جھوٹ کا نام ہے اُس معاملے میں دیے گئے کسی بیان کو سچ نہ سمجھا جائے۔

الیکشن کی آمد آمد تھی ہماری گلی کا وعدہ تھا جو کہ تعمیر نہ ہوسکی تو بڑی پھرتیوں کے ساتھ ایک پارٹی کے کونسلر نے ٹف ٹائل پھنکوا کر بنوانا شروع کردی۔ مالِ مفت دلِ بے رحم؛ ایسا جب بھی کبھی ہوا سڑک یا گلی میں کوئی تعمیراتی مواد کسی کا پڑا پایا گیا تو جس کسی کا جتنا ہاتھ لگتا ہے لیتا جاتا ہے اور مال اگر سرکاری ہو تو اُٹھائی گیر مزید دلیر ہوجاتا ہے۔

اخلاقی پستی پر لکھنے کا خیال بھی تب ہی آیا جب پیدل ہی گلی کے موڑ تک جانے کے لئے باہر نکلا تو ایک سے زیادہ معززین کو ٹف ٹائل بائیک کے پیچھے رکھ کر گھر لے جاتے دیکھا۔ پھر واردات کا طریقہ کار بھی ہرکسی کا مختلف ہوتا ہے۔ کوئی اپنے گھر کے ایک سیڑھی کے اسٹیپ کے ساتھ ساتھ جما دیتا ہے کہ جیسے یہ بھی سرکار کی ذمہ داری تھی میں نے پھر ہاتھ بٹا کر کارِ سرکار آسان کیا۔ کچھ دو دو تہیں جما لیتے ہیں اور پھر رات ہونے پر اندر لے جاتے ہیں۔ یہ مظاہرہ صرف ایک گلی تک محدود نہیں یہ بیماری بن کر پورے معاشرے کو اپنا شکار بنا چکی ہے اور المیہ یہ ہے کہ اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا۔

اعتقاد کی بات کریں تو وابستہ ہم اُس دین سے ہیں کہ کسی کی دیوار پر ایک معمولی سے نشان کے بھی جواب دہ ہیں اور عملاً کسی ریڑھی سے کوئی پھل خریدنے کھڑے ہوں تو کھڑے کھڑے دو چار چیک کرنے کے بہانے کھا جاتے ہیں اتنا نہیں کرتے کہ اُس ریڑھی والے سے اجازت ہی لے کر کھا لیں لیکن یہ بھی شان کے خلاف ہے اور اتنا علم نہیں کہ اوپر اس کا بھی حساب دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعا بخشش و مغفرت کی مانگی جاتی ہے اللہ کی رحمت مانگی جاتی ہے ورنہ معاملہ حساب کتاب پر آگیا تو ایسے ہی کسی ایک انگور کے دانے پر پکڑ ہو سکتی ہے، کسی مونگ پھلی کے دانے پر یا کسی ایک ٹف ٹائل پر بھی ہو سکتی ہے اور یہ تو بڑی معمولی چیزیں ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کے حقوق غصب کر جاتے ہیں ان کی ہمت کو داد ہے ورنہ اللہ کے غضب سے کون نہیں ڈرتا۔

گھر کو لوٹتے ہوئے میں نے ایک صاحب سے پوچھ ہی لیا یہ ٹائیلیں گھر میں کیا کام آسکتی ہیں تو اخیر طمانیت سے جواب دیا لوہے کی بنی ہوئی کافی اشیاء گھر پر ہیں فرش وغیرہ دھوتے ہوئے اُن پر پانی پڑتا ہے زنگ لگنے کا خدشہ ہوتا ہے اب آپ خود سوچیں آج کل گزارہ کتنا مشکل ہے حق حلال کی کمائی ایسے ضائع تھوڑا ہونے دے سکتے ہیں موصوف کی دلیل سُن کر دل ہی دل میں ہنستا ہوا گھر کو چل دیا جیسے ہی گھر کے اندر قدم رکھا، کیا دیکھتا ہوں فرش دُھل رہا ہے اور ہماری لوہے کی چارپائی چار ٹائیلوں پر کھڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).