کار آمد تخلیق



توقیر عباس اِتفاق سے میرا دوست بن گیا، اِتفاق سے وہ شاعر بھی ہے، اور اِتفاق ہی سے، وہ اچھا اِنسان بھی ہے۔ اچھا انسان والا جُملہ معترضہ ہے؛ کیوں کِہ وہ ایک شام مجھے ایک ایسی محفل میں لے گیا، جو اُس کے اچھا ہونے کو مشکوک بناتی ہے۔ جب ہم اُس جگہ پہنچے، تو محفل گرم تھی۔ اَب یہ اتفاق نہیں، کِہ ہال میں بجلی نہ تھی؛ چار برس پہلے لاہور میں بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ آج کا احوال خدا جانے یا لہوریے۔

میں آپ کے لیے، اس ماحول کی منظر کشی کرتا ہوں۔ کمرے میں داخل ہوں، تو بائیں ہاتھ پر دیوار کے سامنے میز لگا کر اس کے پیچھے، چار پانچ کرسیاں بچھا کر اسٹیج سجایا گیا تھا۔ میز پر پڑی موم بتیوں کی لَو تھرا رہی تھی، اس روشنی سے اُداسی کا سماں بندھ رہا تھا۔ درمیان والی کرسی پر بیٹھا شخص پر وقار دکھائی دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اِسی سے میں نے اندازہ لگایا، کِہ یہ صاحبِ صدر ہیں۔

ان کے دائیں ہاتھ پر دو نوجوان بیٹھے تھے؛ ایک رجسٹر کھولے حاضرین کی باتیں نوٹ کر رہا تھا، یا اُن کے چائے پانی پر اُٹھنے والے اخراجات کا حساب کتاب کر رہا ہو گا۔ و اللہ اعلم بالصواب۔ صاحبِ صدر کے بائیں ہاتھ پر ایک مفلوک الحال یوں بیٹھا تھا، جیسے کوئی عدالت میں بے دِلی سے اپنا مقدمہ لڑنے آیا ہو؛ جسے یقین ہو، کِہ وہ یہ مقدمہ ہار جائے گا۔ اُس کے بال کچھ کچھ بِکھرے ہوئے تھے، اور شیو بڑھی ہوئی تھی؛ جیسے سستی فلموں میں قیدی کی بڑھی ہوتی ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ وہ افسانہ نویس ہے، جس نے آج کی مجلس میں اپنی تحریر تنقید کے لیے پیش کی تھی۔ یہ ایک ترقی پسند ادبی تنظیم کا ہفتہ وار اجلاس تھا۔

میں اور توقیر نا لائق بچوں کی طرح کرسیوں کی آخری قطار میں بیٹھ گئے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے پہلے افسانہ پڑھ کر سنایا جا چکا تھا؛ اِس وقت حاضرینِ مجلس، اپنی باری آنے پر افسانے کی خوبیوں اور کہانی کار کی خامیوں کی نشان دہی کر رہے تھے۔ میں نے اُن کی باتوں کو کم کم سنا۔ وجہ یہ تھی، کِہ اِس دوران میں توقیر کے کان میں کھسر پھسر کر کے، حاضرینِ محفل کا تعارف لیتا رہا، اور وہ اپنے سیل فون کی اسکرین پر نگاہیں جمائے، مجھے جواب دیتا رہا۔

توقیر نے اپنے سیل فون پر انٹرنیٹ کی سہولت لے رکھی تھی؛ اس کی عادت بن چکی تھی، کِہ اپنے اِرد گِرد کے ساتھیوں سے کم، اور انٹر نیٹ کے دوستوں سے زیادہ رابطہ رکھتا۔ کہانی پر تنقید کا مرحلہ ختم ہوا، تخلیق کار کو بولنے کا موقع فراہم کیا گیا؛ اُس نے معافی مانگ کر اپنی جان چھڑائی؛ اُسے معاف کر دیا گیا۔ اب اُسی کرسی پر ایک شاعر کو بٹھا دیا گیا۔ یہی شاعر کچھ دیر پہلے افسانے پر تنقید کرتے ہوئے، انتہائی با اعتماد لگ رہا تھا؛ اَب اُس کی حالت ویسی ہی بن گئی تھی، جیسے کچھ دیر قبل مذکورہ افسانہ نویس کی تھی۔ جب کِہ کہانی کار شرکا کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے، اپنی قمیص کے بازوں کو اوپر کی جانب اُڑس رہا تھا، جیسے لڑائی پر آمادہ فریق اپنی کفیں چڑھاتا ہے۔ یہ در اَصل مقابِل کے لیے اِس بات کا اعلان ہوتا ہے، کِہ تمھاری خیر نہیں۔

اِس دوران صاحبِ صدر کے دائیں ہاتھ والے دونوں نوجوان شرکا میں شاعر کے ہاتھ سے لکھا پرچا بانٹ چکے تھے۔ اُس کی ایک نقل میرے ہاتھ بھی لگی۔ شاعر کے سنانے سے پہلے میں اِن نظموں کو پڑھ چکا تھا۔ میں نے توقیر کی طرف استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا، ’فارغ نظمیں ہیں‘۔ اس نے گویا فتوا دِیا۔ میں نے اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ کلام بہ زبان شاعر سُنایا گیا۔ اس کے بعد ان نظموں کا پوسٹ مارٹم شروع ہوا۔ لیکن ٹھیریے! پہلے میرا درد سن لیجیے۔

جب سے مجھے مثانے کی تکلیف ہوئی، ڈاکٹرز نے زیادہ مقدار میں پانی پینے کی ہدایت کی تھی۔ کم پانی پیوں تو بیمار ہو جاتا ہوں، اور زیادہ پی لوں تو ’اَوَازَار‘ ہو جاتا ہوں۔ میری ایک کم زَوری یہ بھی ہے، کِہ میں بہت سے لوگوں کی موجودی میں بیت الخلا کا رُخ نہیں کر سکتا؛ حیا مانِع ہوتی ہے؛ لہاذا میں نے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر برے وقت کو ٹالنا چاہا، اور توجہ بٹانے کے لیے، سب کی باتوں پر دھیان لگایا۔ تنقید بڑی دھانسو قِسم کی ہو رہی تھی۔

ایک نے کہا، چوں کہ شاعر ملحد ہے، لِہاذا یہ بے کار نظمیں خدا سے شکوہ ہیں۔ دوسرے نے اعتراض کِیا، یہ شکوہ نہیں ہے، کیوں کِہ جس کا وجود تسلیم کیا جائے، اُسی سے شکوہ ہو سکتا ہے؛ اگر مان لیا جائے، کِہ یہ شکوہ ہے، تو شاعر کو ملحد نہیں قرار دِیا جا سکتا۔ کسی نے کہا، یہ نظمیں، نیو کنزَرویٹِو رُحجان کی نمایندگی کرتی ہیں، جِس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

ایک شخص نے بولنے کی اجازت چاہی، تو اُسے اپنا تعارف پیش کرنے کو کہا گیا۔ یہ بھی میری طرح اِس اجلاس میں پہلی بار شرکت کر رہا تھا۔ اُس کا خیال تھا، یہ نظمیں آزاد خیالی کی عمدہ امثال ہیں؛ اِس لیے شاہ کار نظمیں ہیں۔ شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ سب سمجھ گئے، کِہ اِسے شاعر نے خصوصی دعوت نامہ دے کر بلایا ہے۔ نیو کنزَرویٹِو رُحجان پر توجہ دِلانے والے نے، آزاد خیالی کی ٹَرم کو متروک قرار دِیا، اور خطرناک بھی۔

ایک جذباتی ناقد جو نہ جانے کب سے شاعر کے خلاف بھرا بیٹھا تھا، شاعر کو کافر بتلانے کے بعد، نظموں پر بات کرتے، مذہب کی افادیت سمجھانے بیٹھ گیا۔ صاحبِ صدر نے نظموں پر بات کرنے کو کہا۔ جواب دِیا، میں اُسی طرف آ رہا ہوں، یہ تمہید ہے۔ پھِر وہ پانچ منٹ تک مذہب کی خصوصیات بیان کرتا رہا۔ دوسری بار ٹوکنے پر وہی جملہ دُہرایا۔ ’یہ تمہید ہے‘۔ جب وہ پندرہ منٹ تک نظم کے بہ جائے، مذہب کے فوائد گنواتا رہا، اور شاعر کو ملحد کہنے پر زور دِیا، تو شاعر اپنے بال نوچ کر کہنے لگا، ’’ہاں ہاں! میں ملحد ہوں، میں کافر ہوں‘‘۔ شاعر کو بتایا گیا، کِہ اُسے خود اپنے بال نوچنے کی اجازت نہیں ہے، کیوں کِہ سب اِسی مقصد کے لیے اکٹھے ہیں۔

کوئی ترقی پسند، کوئی ادب پسند، اِن نظموں میں افادیت نہ تلاش کر سکا۔ سبھی کا خیال تھا، یہ نظمیں سماج سدھارنے، معاشرے کو بدلنے کے لیے، کسی طرح بھی کار آمد نہیں ہو سکتیں۔ سب کا مکالمہ سن کے مجھے سمجھ یہی آیا، کِہ جو اَدب افراد کے لیے کار آمد نہ ہو، اس کا وجود بے معنی ہے۔ بحث طول پکڑتی گئی، اور میرے مثانے پر بوجھ اِس حد تک بڑھ چکا تھا، کِہ شرم کو طاق میں رکھ کر، بیت الخلا کی طرف بڑھا۔ ہال میں مَوم بتی کی وجہ سے ملگجا اندھیرا تھا؛ جب کِہ واش رُوم میں مکمل تاریکی تھی۔ میں نے سیل فون کی لائٹ آن کی، تاکِہ کچھ تو دِکھائی دے؛ جونھی میں نے ’کام‘ مکمل کیا، سکون کے احساس سے سرشار ہوا۔ لوٹے میں پانی لینے کے لیے ٹونٹی کی پھِرکی گھمائی، تو نلکا سوں سوں کر کے رہ گیا۔
’’اوہ! اَب کیا کروں‘‘؟

اگر جلدی نہ ہوتی تو ٹِشو پیپر ساتھ لیتا، لیکن کہتے ہیں، کِہ ضرورَت ایجاد کی ماں ہے۔ میرے ایک ہاتھ میں شاعر کی نظموں کا پرچا دبا ہوا تھا۔ وہی پرچا، جو نظمیں سنانے سے پہلے، سب میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ٹِشو پیپر کا مسئلہ حل ہو گیا۔

میں ہال میں لَوٹا، تو دیکھا، شاعر نا چارہ بار بار پہلو بدل رہا ہے؛ اُس کے مثانے پر نہ سہی، دِل و دماغ پر بہت دباو تھا، اور یہ دباو ناقدین کے بے رحمانہ تبصروں کے باعث تھا۔ مجھے اُس کی حالت پر بہت ترس آیا۔ آخر اُس نے چند نظمیں ہی کہی ہیں، کوئی گناہ تو نہیں کیا۔ ایمان داری کا تقاضا تھا، زرا سی کوشش کی جاتی، تو ان نظموں کو کوئی نہ کوئی مفہوم پہنایا جا سکتا تھا۔ یہ فریضہ مجھی کو سر انجام دینا تھا۔

میں نے دایاں ہاتھ بلند کیا، کِہ مجھے بھی اظہار کا موقع دیا جائے۔ صدرِ محفل نے اجازت مرحمَت فرمائی۔ میں نے گلا کھنکھار کر نپے تلے انداز میں بولنا شروع کیا۔
’’جناب! میں شاعر اور شاعری کے بارے میں اِتنا نہیں جانتا، جِتنا کِہ یہاں بیٹھے دوست؛ لیکن تمام بحث سے یہ نتیجہ اَخذ کِیا ہے، کِہ تخلیق وہ بڑی ہے، جو کار آمد بھی ہو‘‘۔

میں سانس لینے کے لیے رُکا، کچھ سر تائیدی انداز میں ہلتے ہوئے محسوس ہوئے، میرا حوصلہ بڑھ گیا۔
’’یہ تو ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے، کِہ کون سی شئے کیسے کار آمد ہو سکتی ہے، لیکن مجھے کہنے دیجیے، میں نے اِن نظموں کو نہایت کار آمد پایا ہے؛ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں، کِہ یہ نظمیں، سماج کا گند صاف کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئی ہیں‘‘۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran