موت سے پہلے انسان کو کیا محسوس ہوتا ہے؟


موت ایک دکھ دینے والا موضوع ہے۔ یہ زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تبدیلی انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہے۔ ہر منظر عارضی اور فنا کے راستے پر گامزن ہے۔ بقول کافکا: ”زندگی کا مطلب یہ ہے کہ اسے ختم ہوجانا ہوتا ہے“۔ ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنے کسی بہت قریبی عزیزسے بچھڑنے کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہ دکھ جہاں ایک طرف انسان کو ذہنی طور پر منتشر کر دیتا ہے، وہیں اسے مضبوطی بھی عطا کرتا ہے۔ دکھوں کے پیچھے انسانی بہتری کے لئے جواز پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے محسوس کیا کہ اکثر لوگ اس سے موت کا ذکر کرتے تھے اور اس کیفیت کو وہ Thanatophobia کہتا ہے۔

روشنی جہاں ایک طرف بھروسہ بن کر زندگی میں جوش اور ولولہ بھرتی ہے تو دوسری جانب اندھیرا موت کی پراسراریت کی طرف اشارہ ہے۔ اس موضوع پر کتنی ہی کہانیاں اور ناول لکھے جاچکے ہیں۔ فرائڈ خود موت کے خوف میں مبتلا تھا اور اکثر اس کا تصور کرکے بیہوش ہوجاتا تھا۔ اسی خوف کا شکار ہٹلر بھی تھا جس نے اس خوف سے بچنے کے لئے خودکشی کرلی تھی۔ کتنے ہی لوگ موت کے انتظار میں لمحہ لمحہ گذارنے سے شدید گھبراتے ہیں اس لئے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی جا ن لے لیتے ہیں۔ حساس انسان زندگی کے ظالم شکنجے میں تڑپ کر ناخوشگوار انجام کو پہنچتا ہے۔

ادب کی تاریخ میں اکثر مہان لکھاریوں کے اموات کے سلسلے عجیب حالات اور اسرار کی دھند میں لپٹے نظر آتے ہیں جن میں ایڈگر ایلن کے ساتھ کرسٹوفر مارلو، ثروت حسین، سارہ شگفتہ، شیلی، ورجینیا وولف، ارنیسٹ ہیمنگوی، سلویا پاتھ و دیگربھی شامل تھے۔ ان لوگوں کی غیر معمولی زندگیوں کی طرح ان کی اموات بھی دل دہلا دینے والے حادثات جیسی تھی۔

موت برحق ہے، جس سے فرار ممکن نہیں ہے۔

تحقیق کے مطابق انسان موت سے کچھ عرصہ قبل ہی Pre Death Syndrome (موت سے پہلے کی بیماری) والی کیفیت میں مبتلا ہوچکا ہوتا ہے۔

اس کیفیت کو Delirium (مغالطہ) یا organic brain syndrome کہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں انسان، موت آنے سے پہلے ہی حقیقت سے غافل ہوجاتا ہے اور نیند کی سی کیفیت میں اسے سائے اور تصوراتی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ طبیب نفسی ان کیفیتوں کا طبعی بنیادوں پر جائزہ لیتی ہے، جو ذہن کی غیر فعال کارکردگی کے باعث ہوتی ہیں۔ لیکن مابعد از نفسیات کے ماہرین ان کیفیات کو مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرنے سے پہلے (چاہے انسان بستر مرگ پر نہ ہو) انسان ایک عجیب کیفیت میں لاشعور سے جڑ جاتا ہے۔ یہ کیفیت چند ماہ یا کبھی کبھی کچھ ہفتوں پر محیط رہ سکتی ہے۔

موت سے قبل لاشعور متحرک ہوجاتا ہے اور شعور کے اوپر سے ناواقفیت کے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔ جیسے ولیم ورڈز ورتھ نے اپنے مشہور نظم Ode“: Intimation of immortality from recollection of early childhood“ میں بیان کرتا ہے کہ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو کافی وقت تک اس کا تعلق آسمانی نور سے ہی جڑا رہتا ہے۔ تجربے کی دنیا اس روشنی کو چھین لیتی ہے۔ اسی طرح دنیا سے جب جانے کا وقت آتا ہے تو انسان دوبارہ اسی روشنی سے رابطے میں آجاتا ہے، جہاں سے وہ آیا تھا۔ پیراسائیکالاجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی ذہن کی پروگرامنگ بھی لاشعوری طور پر طئے ہوتی ہے۔ لاشعور میں محفوظ واقعات، اس کے رویوں کو ترتیب دیتے ہیں۔

انسان کس دنیا سے آتا ہے، فقط عقائد کے علاوہ، سائنس اس راز کو نہیں کھول سکی آج تک۔ ایک دوست نے مرنے سے ایک مہینہ پہلے خواب دیکھا تھا کہ ہر طرف عجب سی دھند پھیلی ہوئی ہے۔ زمین سے لے کر آسمان تک اوپر جاتی ہوئی ایک سیڑھی نظر آرہی تھی۔ ابھی اس نے اس سیڑھی کے کچھ زینے ہی طےکیے تھے کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ صبح کو اس نے جب یہ خواب اپنے شوہر کو سنایا تو اس نے اسے مذاقاً کہا کہ ”تمہارا وقت اس دنیا سے ختم ہونے کو ہے۔ “ اس بات یا مذاق کا تذکرہ جب وہ سب سے کر رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے۔

اس وقت وہ بیمار بھی نہیں تھی۔ لیکن اگلے ہی ہفتے اسے دل کی بیماری کا پتا چلا۔ اس طرح وہ مہینے کے اندر اندر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک مہینہ پہلے سے ہی پری ڈیتھ سنڈروم کے تجربے سے گزرنے لگی تھی۔ یہ ایک حسیاتی معاملا ہے طبعی کیفیت نہیں ہے، اس موقعے پر حقیقتاً انسان لاشعور سے رابطے میں جڑجا تا ہے۔ لاشعور جو کہ ادراکی کیفیت کا مرکز ہے۔ ماورائی سوچ، خیال، وجدان اور روحانیت لاشعوری کیفیات ہیں۔ یہ کیفیت جانی پہچانی سے انجانی ان دیکھی دنیا تک شعور کی منتقلی کہلاتی ہے۔ ہم حال میں تو شعوری حالت میں موجود ہیں۔ اس طرح ہمارے تجربے اور مشاہدے، لاشعور میں غیر محسوس انداز سے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ذہن کا ایک حصہ مشاہدے کو محسوس کرکے دوسرے حصے یعنی لاشعور میں منتقل کردیتا ہے۔ یہ ایک غیر محسوس عمل ہے۔ لیکن محسوس اور غیر محسوس رویے، مشاہدے اور واقعات بیک وقت میں ظہورپذیر ہوتے ہیں۔

ہم فقط طبعی حقیقتوں اور مشاہدوں کو محسوس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جب کہ غیر محسوس رویے، مشاہدے اور واقعات کو فقط اس وقت پرکھ سکتے ہیں، جب ہم شعور اور لاشعور سے بیک وقت رابطے میں ہوں۔ یا پھر انسانی احساس میں وسعت اور سمجھ بالا درجے کی ہو، جسے higher se1f کہتے ہیں۔ اس کیفیت میں انسان مادیت سے اوپر ہوکر سوچتا ہے۔ اور دوبارہ اپنی جڑوں کے ساتھ متصل ہوجاتاہے۔ یہ جڑیں ایک ان دیکھی دنیا میں پیوست ہیں، جو احساساتی روشنی اور یقین کے ستونوں کے سہارے کھڑی ہیں۔

کافی لوگوں کو موت سے پہلے، اپنے قریبی رشتے دار نظر آنے لگتے ہیں یا سوئی جاگی کیفیت میں وہ اپنے کتنے ہی عزیزوں کے نام پکارنے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے لاشعور کی دھارا گہرائی کے ساتھ پلٹی ہو۔ ان کے احساس میں ایک کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بیشک موت ایک عام حقیقت ہے مگر اس تجربے سے گزرنے والے کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ ہوتی ہے۔ وہ جس دنیا، اس کے مناظر اور اور رشتوں کے ساتھ احساساتی طور پر جڑا ہوا ہوتا ہے، اس کا ٹوٹنا احساساتی حادثہ ہے۔ یہ ہی سبب ہے کہ موت کے کچھ سال پہلے سے ہی انسان، ماضی میں چلا جاتا ہے۔ یا اپنے بچپن میں پہنچ جاتا ہے۔

میں جب اپنی اس دوست کی ماں سے ملنے گئی تو اس کی سائیڈ ٹیبل پر بھنے ہوئے چنے، ریوڑیاں اور ٹافیاں رکھی ہوئی تھیں۔ جو کہ وہ بچپن میں کھایا کرتی تھی۔ وہ بیٹھے بیٹھے کچھ ڈھونڈنے لگ جاتی تھی، تکیہ اٹھا کر دیکھنے لگتی یا اپنے سامان کو الٹنے پلٹے لگتی تھی۔ مجھے وہاں احساس ہوا کہ جیسے وہ گزرا ہوا وقت و واقعات تلاش کررہی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی مختلف واقعات سناتی تھی۔ جیسے دماغ میں کوئی ٹیپ رکارڈر ہو اس کے۔ بنا تسلسل والی باتیں۔ کبھی بچپن کی تو کبھی جوانی کی، لیکن حال کی بہت کم بات کرتی تھی۔ ایسے تجربے سے گزرنے والے انسان کے ذہن سے حال غائب یا غیر موجود ہوجاتا ہے۔

نوسٹلجیا (ماضی کی یاد) میں مبتلا انسان، ان کیفیات میں سے زیادہ گزرتا ہے۔ انسانی دماغ محض طبعی طور پر چلنے والا مکینزم نہیں ہے پر یہ ایک معجزاتی تخلیق ہے، جس میں کل کائنات سمائی ہوئی ہے، جس میں پورا ماضی جمع ہے۔ ہر خوشی، ہر دکھ اور حادثہ دماغ میں سانسیں لے رہا ہے۔ یہ حال میں کس طرح سے ظاہر ہوتا ہے، زندگی کو کیسے متاثر کرتا ہے یا رویوں کا کس طرح تعین کرتا ہے، اس امر سے ہر کوئی واقف نہیں ہوتا۔

یہ حقیقت ہے کہ انسانی رویوں کے پیچھے ماضی چھپا ہوا ہوتا ہے۔ وہ ماضی جو تحت ا لشعور (subconscious mind) میں جذب ہوتا ہے۔ ماضی کے تجربے، مشاہدے جس طریقے سے حال پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی طرح یہ واقعات ایک مرنے والے انسان کے ذہن پر ایک فلم کی طرح چل رہے ہوتے ہیں اور اس کے ذہن کی اسکرین پر سے منظر ابھرتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔

اگر انسان کو علم ہو جائے کہ وہ کل نہیں رہے گا یا آنے والے ہفتے یا مہینے کے اندر دنیا سے رخصت ہوجائے گا تو انسان کی آنکھوں پر سے خوش گمانی اور غلط فھمی کے جو پردے چڑھے ہوئے ہیں، وہ اتر جائیں۔ جیسے بلائنڈ ڈاٹ آنکھوں میں ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں ہوتا، بلکل ایسے ہی موت کا ہماری رگ رگ میں سانس لیتے ہوئے بھی ہم زندگی کے دائمی ہونے کے مغالطے میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر ہم موت کو سمجھنا شروع کردیں تو اس سمجھ جانے کی منزل کے بعد سے زندگی کا ہر لمحہ اہم، معتبر اور عزیز ہوجائے گا۔ پیسے کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں گے۔ رشتوں کے بھروسے میں زندگی کی ہر خوشی محسوس ہوگی اور وہ خوشی دائمی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).