چالیں اور ملک کی ہِلتی چُولیں


الیکشن میں کامیابی کے لئے چونکہ فوج کا کردارہمیشہ سے نہایت اہم گردانا جاتا ہے اس لیے سیاست سے دلچسپی رکھنے والے وقتاً فوقتاً جرنیلوں کی تصاویر والے پوسٹرز لگوا کران کی آشیربادشامل حال ہونے کی دہائی دیتے رہتے ہیں البتہ اپنی انتخابی مہم میں اس سے احتراز برتتے ہیں۔ یہ پہلے جنرل الیکشن تھے جس میں انتخابی اختراعات کی نئی طرحیں پڑیں این اے 80سے پی ٹی آئی کے امیدوار ناصر چیمہ نے نہ صرف آرمی چیف بلکہ چیف جسٹس کی فوٹو بھی پوسٹرپرچھاپ دی اور یہ دونوں فوٹو اتنی بڑی چھاپیں کہ پارٹی قائدین کے لئے گنجائش نہ بچی کوشش کرنےسے چھپ توگئے لیکن بیک گراؤنڈ میں کہیں چھُپ ہی گئے۔ امیدوارکواس اختراع کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ الیکشن سے باہرہوگئے۔

یوں توفوج کا ہرالیکشن میں نہایت اہم کردارہوتا ہے اس بارانتخابی مہم میں انہوں نے بھی کچھ اختراعات تراشنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی رہے تقریباً امریکہ کی کل فوج جتنی تعداد میں نفری انتخابی عمل کی نگرانی پرمامورہوئی اور پھر امریکہ ہی کی طرح فتوحات بھی کرلیں۔

خفیہ ایجنسیوں کےسیاست میں کردارکا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے اب جبکہ یہ اعتراف وہ خود سپریم کورٹ میں اصغرخان کیس میں کرچکے ہیں یہ کردارہمیشہ ایسا ڈھکا چھپا رہا کہ اگرکسی کو کوئی کلیو ملا بھی تو اس نے پردہ پوشی کی کوشش کی تاکہ ان پر انگلیاں نہ اٹھیں البتہ اس بار انہوں نے بھی نرالا ڈھب اپنایا اور اپنی پہچان افشاء ہونے کو خاطرمیں لائے بغیراپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے ہرممکن اقدام کیا۔

ملک میں ’تبدیلی‘لانے کے لئے ایک ادارہ کافی نہیں تھا سودیگر معاون اداروں کی معاونت لی گئی۔ ملک کے اہم ستون انتظامیہ کو گرانے اور اگلی بارکے لئے اپنی مرضی کی مقننہ لانے کے لئے ضروری تھا ایک ایسا معیار اور پیمانہ تشکیل دیا جائےجو آئین اور قانون کی رو سے اپنےمن پسندافراد کو صادق اور امین کی سند دے اور ناپسندیدہ شخصیات کوآئین وقانون کے اسی آرٹیکل کے تحت نا اہل بلکہ تاحیات نا اہل قراردے، انتظامی عہدے سے نکالے اس کی سیاست مکائے اور اس کے ساتھیوں، حامیوں کو ایسے گھیرے کہ بچنے کی کوئی راہ سجھائی نہ دے۔ وہ جو کہتے تھے کہ ملک کا انتظامی سربراہ خود کو بالاترسمجھنے لگا ہے وہ خود سب سے بالاترہوگئے آئین اور قانون کی کتاب ایک طرف رکھی اور ناولوں، افسانوں سے ایسے ایسے اقوال زریں قوم کوسنائے کہ قوم انگشت بدنداں رہ گئی۔

صرف سیاستدانوں کوجبری گرفت میں لانے کا واحدبا اعتماد ادارہ ’نیب ’ بھی حرکت میں آیا۔ سیکڑوں مقدمات کو ایک طرف رکھ کراس کے سارے تفتیش کار، کھوجی، محقق اور افسران الیکٹ ایبلزکے پیچھے پڑ گئے ان کا معیاربھی منفرد تھا۔ اوپری اداروں کی من پسند جماعت تحریک انصاف کو نیب سے قطعی استثنیٰ حاصل رہا جبکہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی سمیت ہراس جماعت کے الیکٹ ایبلزکو اسی کے بل پربدلا گیا جو پی ٹی آئی کی حلیف نہیں تھی۔ درجنوں کی تعداد میں مختلف جماعتوں کے الیکٹ ایبلزنیب کی اس لانڈری سے دھل کرپی ٹی آئی میں گئے تاکہ اس کی کامیابی کی فضاء بنائی جاسکے لیکن شاید فضاء پھربھی نہ بن سکی تب ایک اور حربہ استعمال کیا گیا بقول شخصے بہروپ بدل کر محکمہ زراعت میدان عمل میں نکل آیا اور ناپسندیدہ جماعت سے وفاداری پرقائم رہنے والے سیاستدانوں کو جسمانی تشدد کا سامنا کرناپڑا۔ محکمہ زراعت کے متعدد افسران، اہلکاروں اور کارندوں کے نام سامنے آئے لیکن جنگل کے قانون میں طاقتور کو کون پوچھ سکتا ہے؟

ریاست کا چوتھا ستون میڈیا شروع میں اس سارے عمل میں کمزورسی رکاوٹ بنا لیکن پھرپالیسی سازوں کی نظرکرم ادھربھی آن پڑی۔ خزانے کے منہ کھول دیے گئے، چینلز کو نیوز گیدرنگ کے لئے جدید، مہنگے آلات، حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اور لفافے وچیک ملنے لگے بیشتر کےخیالات بدلنے لگے روزنامہ جنگ جو شروع میں آزاد صحافت کی رٹ لگاتا رہا بعد میں دب جانے کے باوجودآج بارہ صفحات کا اخباربن چکا ہے ڈان اخبارآج بھی اہم شہروں اور ان شہروں کے اہم علاقوں میں ناپید ہےجہاں اسے پڑھا جاتا تھا۔ جیوکی یقین دہانیاں بھی کسی کام نہیں آئیں اس کے خلاف گھیرا آج بھی تنگ ہورہا ہے کیونکہ نسلوں کو سبق سکھانے والی بات محض خیالیہ نہیں ہے

ملک میں یہ پہلی بار نہیں ہورہا سترسال کی تاریخ ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہے جمہور، جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ اسی طرح تضحیک کا نشانہ بنائے جاتے رہے ہیں۔ طاقتورادارے اپنی چالیں چلتے رہے ہیں اور چلتے رہیں گے انہیں ان چالوں کی بدولت ملک کی ہِلتی چولیں بھی سنائی نہیں دے رہیں وہ کان اور آنکھیں بند کیے محواستراحت ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).