تذکرہ ”شہرآشوب” اوچ شریف


سوالاکھ اولیائے کرام کی نگری اوچ شریف برصغیر کی ان تاریخ ساز بستیوں میں سے ایک ہے جہاں اگر ایک طرف سلطنتوں کے عروج وزوال کی داستانیں مرتب ہوتی رہیں تو دوسری طرف تہذیب و ثقافت کے ان گنت نقوش ابھرتے اور مٹتے رہے۔ اسلامی تصوف و شریعت کی شمعیں جو کفروضلالت کے تاریک گوشوں کو منور کرنے کے لئے خطہ پاک اوچ میں جلائی گئی تھیں ایک دنیا نے ان سے اکتساب نور کیا۔

بہاول پور سے جنوب مغرب کی طرف 73کلومیٹر کے فاصلے پر پانچ دریاؤں کے حسین سنگم پر واقع یہ شہر کسی زمانے میں سات بڑی آبادیوں میں تقسیم تھا۔ 36میل لمبائی اور 24میل چوڑائی پر محیط حدود اربعہ کی وسعتوں کے حامل اس شہر کی زوال پذیری کا آغاز اس وقت ہوا جب سن 400 عیسوی میں وسطی ایشیاء سے آنے والی ہن قوم اس پر حملہ آور ہوئی اور اس کو تباہ وبرباد کر ڈالا۔ امتدادِ زمانہ کے بے رحم ہاتھوں یہ شہر کئی بار اجڑا اور کئی بار آباد ہوا۔ اپنی قدامت اور تہذیبی خصوصیات کے سبب اس کے ڈانڈے ہڑپہ اور موہنجوڈرو سے جا ملتے ہیں۔

اوچ شریف میں علوم اسلامی کی ابتدا370ہجری میں حضرت سیدصفی الدین گاذرونی ؒ کی آمد سے ہوئی۔ وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں وارد ہوئے اور اوچ میں رہائش اختیار فرما کر محض سترہ سال کی عمر میں انہوں نے برصغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی ’جامعہ فیروزیہ‘ کی بنیاد رکھی۔ جس نے برصغیر میں اس وقت اسلامی تعلیم کے فروغ و ترویج کا فرض انجام دیا جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لئے پوری طرح سازگار بھی نہیں ہوئی تھی۔ ناصر الدین قباچہ کے عہد (607ہجری تا 625ہجری) میں اس ’جامعہ فیروزیہ‘کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ مشہور ایرانی مورخ۔ قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے جلیل القدر عالم ’جامعہ فیروزیہ‘کے صدر نشین تھے۔ اس مدرسے میں بیک وقت اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔

وقت کی بے رحمی کے ہاتھوں اب یہ شہر عبرتوں اور حسرتوں کا مرقع بن چکا ہے لیکن اس کے ذروں میں زندگی کی حرارت بالکل ہی مفقود نہیں ہوئی۔ کیونکہ تہہ خاک ایسے گنج گراں مایہ محو خواب ہیں جن کی موجودگی نے خاک اوچ کو کہکشاں کا ہم پلہ بنا دیا۔ سادات بخارا کے حضرت مخدوم سید جلال الدین سرخپوش بخاری ؒ۔ حضرت مخدوم سید احمد کبیر الدین بخاری۔ حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشتؒ۔ حضرت مخدوم سید صدرالدین راجن قتالؒ۔ حضرت فضل الدین لاڈلہؒ۔ حضرت بی بی جیوندیؒ۔ حضرت بہاول حلیمؒ اور حضرت محبوب سبحانیؒ جیسے عظیم الشان اکابر اور صوفیاء کے مقبرہ جات خطہ پاک اوچ میں واقع ہیں۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق پاکستان میں جن 24آثار قدیمہ کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے چار آثار مقبرہ حضرت بی بی جیوندیؒ۔ مقبرہ حضرت بہاول حلیمؒ۔ درگاہ حضرت مخدوم سید جلال الدین سرخپوش بخاری ؒ اور جامع مسجد درگاہ سید مخدوم سید جلال الدین سرخپوش بخاریؒ بھی اوچ کی دھرتی کے فراخ سینے پر ایستادہ ہیں۔ اساطیری عہد سے لے کر موجودہ دور تک اوچ شریف کی تاریخ کئی الم ناک مراحل سے گزری ہے لیکن پُرآشوب ادوار کے سارے جبر کے تناظر میں مثبت اور حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ علم وعرفان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔

اوچ شریف کو 1959ء میں فوجی حکمران صدر محمد ایوب خان کے نافذکردہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام میں پہلی بار میونسپل کمیٹی کا درجہ دے کرمحمد اعظم خان کو اس کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا۔ بعدازاں مخدوم الملک مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانیؒ نے اس کے پہلے منتخب چیئرمین کا منصب سنبھالا۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے نافذکردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 1979ء کے تحت اوچ شریف کو میونسپل کمیٹی سے تنزلی کرتے ہوئے ٹاؤن کمیٹی جبکہ2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف کے نافذکردہ مقامی حکومتوں کے نظام میں‘ترقی معکوس‘ کی انتہا کرتے ہوئے یونین کونسل کا درجہ دے دیا گیا۔

دوجنوری 2017ء کو پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 2013ء کے تحت اوچ شریف کی میونسپلیٹی حیثیت بحال کر دی گئی۔ تاہم شنید ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے وضع کردہ نئے بلدیاتی نظام میں ایک بار پھر اسے یونین کونسل کا درجہ ملنے والا ہے۔ چار مربع میل سے زائد رقبے پر پھیلے اوچ شریف کی آبادی ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ سب تحصیل 11 یونین کونسلوں۔ 40 مواضعات۔ 3پولیس اسٹیشنز۔ 3 قانون گوئی سرکل۔ ایک لینڈ ریکارڈ سنٹر۔ 3 رورل ہیلتھ سنٹرز۔ ایک بوائز ڈگری کالج۔ ایک گرلز ڈگری کالج۔ ایک بوائز ہائیر سیکنڈری سکول۔ ایک گرلز ہائیرسکنڈری سکول۔ 6بوائز ہائی سکولز۔ 3گرلز ہائی سکولز۔ 11ایلیمنٹری سکولز۔ 49پرائمری سکولز۔ 9بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز۔ ایک میونسپل لائبریری۔ دوگرڈ اسٹیشنز۔ ایک ٹیلی فون ایکسچینج۔ 12پیٹرول پمپس اور 15جامع مساجد پر مشتمل ہے۔

سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی طرف پورے ملک میں قائم 5 کوٹنگ پلانٹس میں سے ایک اوچ شریف میں قائم ہے۔ سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث دیہی علاقے میں شرح خواندگی تقریباً 7فیصد ہے۔ تعلیمی پسماندگی اور صحت مندانہ سرگرمیاں نہ ہونے کے سبب زیادہ ترنوجوان جرائم میں ملوث ہیں۔ طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سیریس مریضوں کو احمد پور شرقیہ یا بہاول پور ریفر کر دیا جاتا ہے۔ جو وہاں پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی مر کھپ جاتے ہیں۔

یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔ کپاس کی کاشت کے حوالے سے یہ علاقہ نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت 8کاٹن فیکٹریاں یہاں کام کر رہی ہیں۔ کھیتوں سے منڈیوں تک سڑکیں نہ ہونے کی بنا پر کسانوں کو ان کی اجناس کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا۔ زیرزمین پانی انتہائی ناقص اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض کا باعث بن رہا ہے۔ تحصیل بننے کے لئے ضروری تمام سرکاری انفراسٹریکچررکھنے کے باوجود اوچ شریف کوتحصیل کا درجہ نہ ملنا مقامی سیاست دانوں کی سرد مہری اور علاقے سے عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اوچ شریف کو تحصیل بنانے کے لئے چنی گوٹھ کو ساتھ ملا یا جائے۔ جغرافیائی۔ ثقافتی اور تاریخی اہمیت کے حامل اوچ شریف کی دھرتی اور درودیوار شکستہ حدت و حرارت کی اسی رمق کی وجہ سے ابھی تک شمع آرزو جلا کر مہر بلب۔ گوش بر آواز اور چشم براہ ہیں کہ شاید کوئی سیاسی مسیحا ان کی شکستگی۔ بدحالی اور پسماندگی کا نوحہ سن کراسے تحصیل کا درجہ دینا ضروری سمجھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).