وزیراعلی صاحب! تھل کی باری کب آئے گی؟


تھل کا استحصال ہو رہا ہے۔ تھل کو پسماندہ رکھنے میں کوئی بھی حکمران پیچھے نہیں رہا ہے۔ اس بات کے باوجود کہ مسلم لیگ نواز، پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ اور جنرل پرویز مشرف جیسے حکمرانوں میں بہت سارے امور پر اختلافات رہے ہیں لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق یوں رہا ہے کہ تھل کے عوام کو ریلیف نہیں دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھل کے عوام کے قریب سے بھی کوئی بھی ایسی سہولت نہیں گزری جو کہ ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور لہور کی عوام کو دی گئی ہے۔ تھل کی اب تک کی صورتحال اس بات کی چغلی کرتی ہے کہ حکمران طبقہ کی طرف سے تھل میں کوئی ایسا منصوبہ نہیں دیا گیا ہے۔

یہاں پراس علاقہ کا تعارف یوں کروایا جا سکتا ہے کہ تھل کا علاقہ (6) اضلاع پر پھیلاہوا ہے جن میں خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ اور جھنگ شامل ہیں۔ اسی طرح تھل کی قومی اسمبلی میں 20سیٹیں ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 37 سیٹیں ہیں۔ یہاں اس با ت کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ تھل کے چھ اضلاع کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشتوں کے مقابلے میں بہاولپور، ملتان اورڈیر ہ غازی خان ڈویثرن کی نشستوں کی تعداد کم ہے لیکن تھل کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ یوں تھل اور پسماندگی کا چولی دامن کا ساتھ چل رہا ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کے دور میں وزیراعظم ہاوس پہنچے تو خیال تھاکہ گیلانی صاحب تھل کیساتھ ترقیاتی سکیموں میں انصاف کریں گے اور عوام کیلئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ ایسے منصوبہ جات دیں گے جس سے اس تاثر کی حوصلہ شکنی ہوگی کہ وفاقی اور صوبائی دالحکومتوں کے حکمران تھل کے عوام کی زندگیوں مثبت تبدیلیاں لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ تھل کے معاملے پر وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کا سلبیس وہی رہا جوکہ نواز لیگی لیڈر شہبازشریف کا بحیثیت وزیراعلی تھا کہ تھل کے عوام کو ایسے ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر رکھنا ہے، عملی کام کوئی نہیں کرنا۔ یوں گیلانی صاحب کا فوکس صرف ملتان ضلع پر تھا جبکہ شہبازشریف کے سارے فنڈز کا رخ لہور کی طرف تھا، تھل نام کا علاقہ ان کی ترحیجات میں شامل ہی نہیں تھا۔

پیپلزپارٹی کے مرکز میں پانچ سال (2008-13)جبکہ نوازلیگی لیڈرشپ کے پنجاب میں پانچ سالہ حکمرانی میں تھل کی عوام کیلئے کوئی ترقی نام کی چیز دینے میں مکمل طورپر ناکام رہے، بعدازاں نوازلیگی لیڈر نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ ایجنڈا تھل کے سلسلے میں تبدیل نہیں ہوا، ادھر پنجاب میں شہبازشریف کے بھی تسلسل کیساتھ دس سالہ دور حکومت (2008-18) تھل کے عوام کیلئے ویسا ہی رہاجیسا کہ قیام پاکستان سے چلا آرہاتھا۔ جنرل الیکشن میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کو عوام نے مسترد کر دیا ہے اور اب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وزیراعظم ہاوس پہنچ گئے ہیں۔ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے اقتدار میں بنیادی سہولتوں سے محروم تھل کی عوام کا خیال تھاکہ اب انکی زندگیوں میں بھی تبدیلی کی ہوا چلے گی اور ان کو ترقی کے سفر میں ڈیر ہ غازی خان، ملتان اور بہاولپو ر ڈویثرن سے پہلے ترقیاتی منصوبے فراہم کرکے ان علاقوں کے برابر ترقی دینے کیلئے اقدامات کیے جائینگے لیکن عوام کیلئے تحریک انصاف کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے مایوس کن پیغام اس وقت ملا جب معروف صحافی جناب روف کلاسرا نے وزیراعظم عمران خان سے صحافیوں کی ایک ملاقات میں ان کی توجہ تھل سے گزرنے والی اہم سڑک ایم ایم روڈ کی حالت زار پھر اس پر حادثات میں اموات کی طرف دلائی او ر روف کلاسرا صاحب کا کہناتھاکہ عمران خان صاحب ملتان، میانوالی، تلہ گنگ سٹرک برباد ہونے سے لوگ حادثوں میں مر رہے ہیں۔ علاقے کے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیاہے، سٹرک بنوادیں۔ عمران خان نے جواب دیا کہ انہوں نے صوابدیدی فنڈز بین کردئیے ہیں۔ پہلے وزیراعظم سٹرکوں کا اعلان کرتے تھے، وہ نہیں کریں گے۔

ادھر اتفاق ہے یا پھر منصوبہ بندی کہ جب بھی اقتدار میں شراکت دار بنانے کی باری آتی ہے تو قرعہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے سیاستدانوں کے نام نکلتا ہے، مثال کے طورپر فاروق لغاری صدر بنے، بلخ شیر مزاری وزیر اعظم بنے، ذوالفقار کھوسہ گورنر بنے، ان کا بیٹا دوست محمد کھوسہ وزیراعلی بنے، اسی طرح سید یوسف رضاگیلانی وزیراعظم بنے، شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ اور گورنر پنجاب بھی ملتانی سیاستدانوں بنتے رہے ہیں لیکن اس معاملے میں تھل کے سیاستدان بھی عوام کی طرح اس حوالے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہواہے کہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ سے عثمان بزدار کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعلی پنجاب کیلئے چنا ہے۔ اسکی نامزدگی کی وجہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بتائی تھی کہ موصوف کا تعلق تونسہ جیسے پسماندہ علاقہ سے ہیں، پھر ان کے گھر میں بجلی تک نہیں ہے لیکن ان کے والد صاحب تین بار رکن صوبائی اسمبلی رہے ہیں۔ اسی طرح بتایاگیا ہے کہ عثمان بزدار تحصیل تونسہ شریف کے ناظم بھی رہے ہیں مطلب موصوف کا علاقہ پسماندگی کی آخری حدوں چھو رہا ہے۔

راقم الحروف کا خیال ہے کہ وزیراعلی پنجاب پسماندہ علاقہ سے یوں نہیں ہیں کہ تحصیل تونسہ شریف ڈیرہ غازی خان ضلع میں ہے، اسی ڈیرہ غازی خان میں غازی میڈیکل کالج، غازی یونیورسٹی، ٹیچنگ ہسپتال، زرعی یونیورسٹی، ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر، ائرپورٹ، کیڈٹ کالج کے علاوہ دیگر اہم سرکاری ادارے موجود ہیں لیکن تھل کے(6) اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ اور جھنگ کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو ڈیرہ غازی خان میں موجود اداروں میں سے ایک بھی نہیں ملے گا۔مثال کے طور پر تھل کے (6) اضلاع میں ایک ائرپورٹ نہیں ہے، ایک میڈیکل کالج نہیں ہے، ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے، ایک ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہے، ایک ٹیکنالوجی کالج نہیں، ایک وویمن یونیورسٹی نہیں ہے، ایک نرسنگ کالج نہیں ہے، ایک موٹروے نہیں ہے، ایک زرعی یونیورسٹی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اور ایسا ادارہ ہے جس کا حوالہ دے کر یہ ثابت ہوسکے کہ تھل کا علاقہ ڈیرہ غازی خان کے برابر کھڑا ہے۔ ادھرعثمان بزدار نے بھی روایتی سیاست کو یوں اپنایا ہے کہ موصوف نے اب پہلی فرصت میں تین ارب سے زاہد کے منصوبوں کا اعلان ڈیرہ غازی خان ضلع کیلئے کیاہے۔ اس کو بھی اس بات کا احساس نہیں کہ تھل جہاں پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہاہے۔ اور تھل ڈیرہ غازی خان سے بھی کہیں پیچھے کھڑا ہے لیکن بزدار نے لگتا ہے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تونسہ کے بارے میں بیان کردہ پسماندگی کو جواز بنا کر لہور کی طاقت اور ترقیاتی منصوبوں کا رخ ڈیرہ غازی خان کی طرف کر دیا ہے جو کہ پہلے ملتان اور بہاولپور کے مقابلے میں ترقی کر چکا ہے۔ ہمارے خیال میں تحریک انصاف کی قیادت اس روش پر نہ چلے جس پر پیپلزپارٹی اور نوازلیگی قیادت چلتی رہی ہے اور تھل کی عوام کو پسماندگی میں رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).