رضو باجی


انھوں نے پہلی بار مجھے حکم دیا۔ میں نے سینے تک راسیں کھینچ لیں۔ بیل دلکی چلنے لگے۔ میں نے جھانک کر دیکھا۔ سانپ کی طرح رینگتی ہوئی سڑک پر دور تک درختوں کے سنتری کھڑے تھے اور ایک سپاہی میرے گھوڑے پر سوار سائے کے مانند میرے پیچھے لگا تھا۔ رضو باجی نے برقع کا اوپری حصہ اتار دیا تھا، اور وہ سرخ بال جن پر ان کے حسن کی شہرت کا دار و مدار تھا، چہرے کے گرد پڑے دہک رہے تھے اور وہ ایک طرف کا پردہ جھکا کر جنگل کی بہار دیکھ رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں کی قاتل گرفت نے ایک بار پھر میرے چٹکی لی اور میں نے بیلوں کو چھیڑ دیا، اور ایک بار پھر ان کے سفید ریشمی ہاتھ میری کمر کو نصیب ہوگئے لیکن اب وہ مجھے ڈانٹ رہی تھیں اور میں بیلوں کو پھٹکار رہا تھا۔ ان کا سر میری پشت پر رکھا تھا، اور میں اڑتی ہوئی ریشمی لپٹوں کو دیکھ سکتا تھا۔ پھر وہ باغ نظر آنے لگا جن کے سائے سے آبادی شروع ہو جاتی ہے۔ مسرکھ سے میرے گھر کا راستہ کبھی اتنی جلدی نہیں ختم ہوا، اتنا دل کش نہیں معلوم ہوا۔ میں نے ادّھا روکا، پردہ برابر کیا۔ سپاہی کو جور پر بٹھا کر خود گھوڑے پر سوار ہوا۔ بستی میں بیل ہانکتے ہوئے داخل ہونا شایان شان نہ تھا۔ رضو باجی مجھے دیکھ رہی تھیں اور مسکرا رہی تھیں۔ جب وہ اتر کر ڈیوڑ ھی میں داخل ہوئیں تو میں نے پہلی بار ان کا سراپا دیکھا اور ان کے سامنے مراسنوں کی تمام کہانیاں ہیچ معلوم ہوئیں۔ وہ مجھ سے تھوڑے دنوں بڑی تھیں، لیکن جب انھوں نے میری پیٹھ پر سر رکھا اور ٹھنک کر کہا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنی بھابی جان اور میری اماں سے مرمت کرائیں گی تو وہ مجھے بہت چھوٹی سی معلوم ہوئیں۔ جیسے میں نے ان کی گڑیاں نوچ کر پھینک دی ہوں اور وہ مجھے دھمکیاں دے رہی ہوں۔

میں جو محرّم میں سارا سارا دن اور اور آدھی رات باہر گزارا کرتا تھا اس سال باہر جانے کا نام نہ لیتا تھا اور بہانے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اندر منڈلایا کرتا تھا۔ نویں کی رات سال بھر میں واحد رات ہوتی تھی، جب ہمارے گھر کی بیبیاں بستی میں زیارت کو نکلتی تھیں۔ پورا اہتمام کیا جاتا تھا کہ وہ پہچانی نہ جائیں۔ برقعوں کے بجائے وہ موٹی موٹی چادر اوڑھ کر نکلتی تھیں، لیکن دور چلتے سپاہیوں کو دیکھ کر لوگ جان جاتے تھے اور عورتیں تک راستہ چھوڑ دیتی تھیں۔ جب رات ڈھلنے لگی اور سب لوگ سوتی چادریں اوڑھ کر یعنی بھیس بدل کر جانے کو تیار ہوئے تو پتا چلا کہ رضو باجی سوگئی ہیں۔ کسی نے جگایا تو پتا چلا کہ سر میں درد ہے اور میں اٹھ کر باہر چلا آیا۔ جب بیبیوں کے پیچھے چلتے ہوئے سپاہیوں کی لاٹھیاں اور لالٹینیں پھاٹک سے نکلنے والی سڑک پرکھوگئیں تب میں اندر آیا۔ وہ دالان میں سیاہ کا مدانی کے دپٹے کا پلو سر پر ڈالے سو رہی تھیں۔ ایک عورت پنکھا جھل رہی تھی دوسری ان کی پائنتی پڑے کھٹولے پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ میں نے ان کی سفید گداز کلائی پر میٹھی سی چٹکی لی۔ انھوں نے منہ کھول دیا۔

’’چلیے آپ کو تعزیے دکھا لائیں۔‘‘

وہ اٹھ کربیٹھ گئیں۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا جسے انھوں نے عورتوں کو دیکھ کر جلدی سے چھڑا لیا اور کھڑی ہوگئیں۔

’’میرے سر میں بہت دردہو رہا ہے۔‘‘

’’زیارت کی برکت سے دور ہوجائے گا۔‘‘

میں نے بڑے جذبے سے کہا انھوں نے کپڑوں پر نگاہ ڈالی۔

’’اگر ان سے خراب کپڑے آپ کے پاس ہوں تو پہن لیجیے۔‘‘

اور میں نے ان کے پلنگ سے چکن کی چادر اٹھا کر ان کے شانوں پر ڈال دی۔

اپنے تعزیے کے پاس بیٹھی ہوئی بھیڑ سے چند پاسی منتخب کیے۔ ان کو بندوق اور ٹارچ لینے کی ہدایت کی اور رضو باجی کو لیے ہوئے سڑک پر آ گیا۔ مجھے بیبیوں کے راستے معلوم تھے جو محرّم کے جلوس کی طرح مقرر تھے اور میں مخالف سمت میں چل رہا تھا۔ کٹا ہوا چاند تہائی آسمان پر روشن تھا اور ہم بستی کے باہر نکل آئے تھے اور میں خود اپنے منصوبے سے لرز رہا تھا۔ پھر وہ تالاب آ گیا جس کے پاس ٹیلے پر مندر کھڑا تھا اور سامنے املیوں کے دائرے میں لکھوری اینٹوں کا کنواں تھا، میں نے اپنے رومال سے پختہ جگت صاف کی۔ نو خیز پاسیوں کو حکم دیا کہ وہ مندر کے اندر جا کر بیٹھ جائیں۔ اب حد نگاہ تک دمکتے پانی اور آبادی کے دھندلے خطوط کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ہمارے چاروں طرف املی کے درختوں کا گھنا سایہ پہرہ دے رہا تھا۔ میں نے اپنا گلا صاف کیا۔ ان کی پاس بیٹھ کر پہلی بار ان کو مخاطب کیا۔

’’یہ کنواں دیکھ رہی ہیں آپ ؟‘‘ مجھے خود اپنی آواز بھیانک معلوم ہوئی۔ ’’یہ جناتوں کا کنواں ہے۔‘‘

انھوں نے پوری شربتی آنکھوں کو کانوں تک کھول دیا اور میری طرف زرا سا سرک آئیں۔

’’اس میں جنّات رہتے ہیں۔‘‘

وہ میرے اور قریب آگئیں۔ ان کا زانومیرے جسم سے مس کرنے لگا، میں بھاٹوں کی طرح لاتعلق لہجے میں کہ رہا تھا۔ ’’یہ جنات میرے ایک دادا کے شاگرد تھے۔ جب دادا میاں اس کنوئیں میں ڈوب کر مرگئے تو جناتوں نے یہاں اپنا بسیرا کر لیا۔‘‘

انھوں نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، چادر ان کے شانوں سے ڈھلک گئی۔ گھٹی گھٹی آواز میں بڑے کرب سے بولیں۔

’’چلو! یہاں سے بھاگ چلو۔‘‘

اور ان کا سر میرے شانے پر ڈھلک آیا اور میں نے سرخ بالوں کی ریشمی لپٹوں میں اپنے ہاتھ جلا لیے جن کے داغ آج بھی جلد کے نیچے محفوظ ہیں۔

”محرّم کی اس رات کے آخری حصے میں جو شخص اس کنوئیں سے اپنے دل کی ایک مراد مانگتا ہے وہ پوری ہوتی ہے۔“

وہ مجھ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھیں، اور میں اس دنیا میں تھا جو پہلی بار میرے حواس نے دریافت کی تھی۔

’’آپ زرا دیر کے لئے چھوڑ دیجیے میں ایک دعا مانگ لوں۔۔۔ آج کے بعد پھر کبھی اس کنوئیں میں کوئی دعا نہ مانگوں گا۔‘‘

وہ تڑپ کر اٹھیں اور مجھ کو تقریباً گھسیٹتی ہوئی چلیں۔ جب پاسی کھڑے ہوگئے تب وہ مجھ سے الگ ہوئیں۔ سڑک پر آکر مچل گئیں کہ گھر جاوں گی مگر میں ان کو بہلاتا ہوا امام باڑے کی طرف چلا۔ یہ امام باڑہ نواب نقی علی کی اس بہن نے بنوایا تھا، جو واجد علی شاہ کی محل تھی۔ آج بھی اس کی اولاد موجود ہے جو امام باڑے والیوں کے نام سے مشہور ہے اور یہ عمارت انھی کے عمل میں ہے۔ یہاں کربلائے معلّیٰ سے لائی ہوئی ضریح رکھی ہے۔ عورتیں اپنے بالوں کی ایک لٹ باندھ کر مراد مانگتی ہیں جب پوری ہوجاتی ہے، تو اپنی لٹ کھول لے جاتی ہیں۔ ایک پاسی نے دوڑ کر امام باڑہ مردوں سے خالی کرا دیا۔ پھاٹک میں عورتوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ بستی کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ میرے گھر کا کوئی فرد کسی عورت کے ساتھ محرّم دیکھنے نکلا ہو۔ زیارت کرنے نکلا ہو۔ دالان کے پاس ایک گدبدی سی لڑکی میرے جوتے کھولنے آئی۔ میں نے رضو باجی کی طرف اشارہ کر دیا۔ وہ ان کے سینڈل کھولنے لگی۔ جب میں اس ہال میں داخل ہونے لگا جس میں سونے کے پانی کی ضریح رکھی تھی تو وہی لڑکی بھاگتی ہوئی آئی اور بولی۔ ’’بٹیا صاحب کہ رہی ہیں کہ آپ باہر ہی رہیں۔‘‘ میں باہر ہی کھڑا رہا۔ جب میں ان کے ساتھ امام باڑے سے نکل رہا تھا ان گنت مرد مجھے کنکھیوں سے گھور رہے تھے۔ عورتیں گھونگھٹ سے جھانک رہی تھیں اور میرے اعصاب کی کمان کھنچی ہوئی تھی کہ ایک عورت نے دوسری عورت سے پوچھا۔

’’کون ہیں؟‘‘

’’بڑے بھیا کی دلھن ہیں۔‘‘

اور میں لڑکھڑا گیا۔ رضو باجی کے سرسے چادر کا جھونپا ڈھلک گیا۔ جب سڑک ویران ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ رضو باجی کا چہرہ لمبی چوڑی مسکراہٹ سے روشن ہے۔ میں ان کے بالکل قریب ہوگیا۔

’’آپ بہت خوش ہیں۔‘‘

’’اوں! ہاں! نہ مانگتے دیر، نہ ملنے دیر۔‘‘

اور میں اس جملے کے معانی سوچتا رہا۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3