رضو باجی


پھر ہمارے مقدر میں کوئی ایسی رات نہ لکھی گئی جو ان کے قرب سے مہک سکتی۔ ایک آدھ بار ان کی صورت دیکھنے کو ملی بھی تو اس طرح جیسے کوئی چاند دیکھ لے اور جب میں سارنگ پور کی ڈیوڑھی پر یکے سے اترا تو دیر تک کسی آدمی کی تلاش میں کھڑارہا، دن دہاڑے وہاں ایسا سنّاٹا تھا، جیسے اس شان دار بوسیدہ عمارت میں آدمیوں کے بجائے، روحیں آباد ہوں۔ میں دہری ڈیوڑھی کے اندرونی دروازے پر جا کر کھڑا ہوگیا اور آوازدی۔ ’’میں اندر آجاؤں۔‘‘

ایک بوڑھی پھٹی ہوئی آوازنے پوچھا، ’’آپ کون ہیں؟‘‘

’’میں چڑہٹّا کا اجنّ ہوں۔‘‘

’’ارے۔۔ آیے۔۔۔ بھیا آ جایے۔‘‘

بھاری پختہ صحن پر میرے جوتے گونج رہے تھے۔ بارہ دروں کے دہرے دالان کی اسپینی محرابوں کے پیچھے لابنے کمروں کے اونچے اونچے دروازے کھلے تھے اور دوسری طرف کی عمارت نظر آرہی تھی۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی میں چونک پڑا، یا ڈر گیا۔ دور تک پھیلے ہوئے سفید چوکے پر سفید کپڑے پہنے ہوئے بھاری بھر کم رضو باجی کھڑی تھیں، چنا ہوا سفید دپٹا ان کے شانوں پر پڑا تھا اور سرخ و سفید بال ان کی پیٹھ پر ڈھیر تھے۔ وہ گردن گھمائے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ اترتی ہوئی شام کی مدھم روشنی میں ان کے زرد چہرے کی سیاہ شکنیں صاف نظر آرہی تھیں، وہ کانوں میں بیلے کے پھول اور ہاتھوں میں صرف گجرے پہنے تھیں۔ میں ان کی نگاہ کی ویرانی سے کانپ اٹھا۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ دیکھتے رہے۔ صدیاں گزر گئیں۔ کسی میں نہ پلک جھپکنے کی طاقت تھی، نہ زبان کھولنے کا حوصلہ پھر جیسے وہ اپنی آواز کا سہارالے کر تخت پر ڈھے گئیں۔

’’تم ایسے ہوگئے! اجّن؟ بیٹھ جاو۔‘‘

میں چوکے کے کونے پر ٹک گیا۔

’’مجھے اس طرح کیا دیکھ رہے ہو؟ مجھ پر جو گزری وہ اگر پتھروں پر گزرتی تو چور چور ہو جاتے۔ لیکن تم کو کیا ہو گیا؟ کیسے کالے دبلے کھپٹا سے ہو گئے ہو۔ نوکر ہو نا! اچھی بھلی تن خواہ پاتے ہو۔ زاہدہ جیسی بیوی ہے، پھول ایسے بچے ہیں، نہ قرض ہے نہ مقدمے بازی، تم بولتے کیوں نہیں؟ کیا چپ کا روزہ رکھ لیا۔‘‘

میں نے دل میں سوچا جناتوں کا سایہ ہے نا ان پر۔

’’آپ نے پندرہ برس بعد روزہ توڑنے کو کہا بھی تو اس وقت، کہ زبان ذائقہ بھول چکی اور معدہ قبول کرنے کی صلاحیت کھوچکا۔‘‘

انھوں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے میرے سرپر سینگ نکل آئے ہوں۔ وہ بوڑھی عورت میرے سوٹ کیس کو نیچے سے لیے ہوئے چلی آرہی تھی، پھر پاچو چچا آ گئے۔ دبلے پتلے سے پاچو چچا جن کے شکار کی ایک زمانے میں دھوم تھی۔

رات کا کھانا کھا کر دیر تک باتیں ہوتی رہیں، جب رضو باجی اٹھ گئیں تو چچی جان نے سرگوشی میں کہا۔

’’آج نوچندی جمعرات ہے۔ بٹیا پر جن کا سایہ ہے وہ آنے والے ہیں۔ تمھارا بستر اپنی طرف لگوایا تھا، لیکن بٹیا نے اٹھوا لیا، اگر ڈرنا تو آواز دے لینا یا چلے آنا، بیچ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔‘‘

جمعرات کا نام سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے خاموش رہا۔ ان کے ہاتھ سے گلوریاں لے کر منہ میں دبائیں اور کھڑا ہوگیا۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے بچے کو تھپکتی رہیں۔ پاچو چچا مجھے بھیجنے آئے دالان میں دو بستر لگے تھے۔ ان کے درمیان ایک کھٹولا پڑا تھا، جس پر رضو باجی کی بوا ڈھیر تھیں۔ پاچو چچا مجھے صحن میں چھوڑ کر لالٹین لیے ہوئے رخصت ہوگئے۔ ایک کالا جھبرا کتا ایک طرف سے نکلا اور مجھے سونگھتا ہوا چلا گیا۔ پھر ایک دروازے سے رضو باجی نکلیں اور سارے میں مشک کی خوش بو پھیل گئی۔ ان کے کپڑے نئے اور پھول تازے تھے۔ صحن میں اکتوبر کی چاندنی کا فرش بچھا ہوا تھا۔ برساتی میں کرسیوں پر ہم بیٹھے ٹھنڈی سفید گاڑھی کافی پی رہے تھے، گفت گو کے لیے الفاظ پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔

’’یہ جناتوں کا کیا قصہ ہے رضو باجی؟‘‘

مجھے اپنی آواز پر حیرت ہوئی۔ میں نے یہ گولی کس طرح داغ دی تھی۔ انھوں نے پیالی رکھ دی مسکرائیں۔ وہ پہلی مسکراہٹ عمر بھر کے غموں سے زیادہ غم زدہ تھی۔

’’میں نے تم کو اسی لیے بلایا ہے۔‘‘

’’کاش آپ نے اس سے پہلے بلایا ہوتا۔‘‘

’’بیاہ کی طرح بے حیائی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے اجّن! دس برس پہلے کیا یہ ممکن تھا کہ تم اس طرح کھلے خزانے آدھی رات کو مجھ سے باتیں کررہے ہوتے؟ آج تم گھر بار والے ہو۔ میں کھوسٹ ہوگئی ہوں اور چچی جان کا باورچی خانہ میری جائداد سے روشن ہے۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو میں حج کرنے جارہی ہوں اور حج کرنے والے ہر اس شخص سے معافی مانگتے ہیں جس کے ساتھ انھوں نے کوئی زیادتی کی ہو۔ تم کو معلوم ہے مجھ پر جنات کب آئے؟ آج سے دس سال پہلے اور تم کو معلوم ہے تمھاری شادی کو کتنے برس ہوئے؟ دس سال تم کو ان دونوں باتوں میں کوئی رشتہ نہیں معلوم ہوتا؟ تم نے چڑہٹا کے سفر میں کیا کیا؟ تم محرّم کی نویں تاریخ مجھے کہا ں کہاں گھسیٹتے پھرے؟ تم اس بھیانک کنوئیں سے میرے سامنے کیا مانگنا چاہتے تھے۔ تم نے عباس علم کو بوسہ دے کر مجھے کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کسے پانے کی آرزو کی تھی؟ جاو اپنے امام باڑے کی ضریح کو غور سے دیکھو۔ میرے بالوں کی سرخ لٹ آج بھی بندھی نظر آئے گی۔ اگر کھچڑی نہ ہوگئی ہو۔ کیا میں نے امام حسین سے صرف ایک عدد شوہر مانگنے کے لیے یہ جتن کیے تھے؟ سارنگ پور کی نائنوں اور میراسنوں سے پوچھو کہ وہ رشتے لاتے لاتے تھک گئیں، لیکن میں انکار کرتے نہ تھکتی۔ کیا مجھ سے تم یہ چاہتے تھے کہ میں سارنگ پور سے ستو باندھ کر چلوں اور چڑہٹّا کی ڈیوڑھی پر دھونی رما کر بیٹھ جاوں اور جب تم برآمد ہو تو اپنا آنچل پھیلا کر کہوں کہ حضور مجھ کو اپنے نکاح میں قبول کرلیں کہ زندگی سوارت ہوجائے۔ تم نے رکھو میاں کی بیٹی سے وہ بات چاہی جو رکھو میاں کی طوائفوں سے بھی ممکن نہ تھی۔‘‘

’’لیکن رضو باجی۔‘‘

’’مجھ پر جنات نہیں آتے ہیں اجّن میاں! میں جناتوں کو خود بلا لاتی ہوں۔ اگر جنات نہ آتے تو کوئی دلھا آ چکا ہوتا اور تب اگر جناتوں کا کنواں، عباسی علم اور ضریح مبارک تینوں میرے دامن کو ایک مراد سے بھر دینے کی خواہش کرتے تو میں کیا کرتی؟ کس منہ سے کیا کہتی۔ اس لیے میں نے یہ کھیل کھیلا تھا۔ اسی طرح جس طرح چڑہٹے میں تم مجھ سے کھیل رہے تھے۔ نہ اس میں تمھارے لیے کوئی حقیقت تھی اور نہ اس میں رضو کے لیے کوئی سچائی ہے۔ یہ حج میں اپنے باپ کے لیے کرنے جارہی ہوں، جو میرے بوجھ سے کچل کر مرگئے جنھوں نے مرتے وقت بھی اپنی عقبیٰ کے لیے نہیں، میری دنیا کے لیے دعا کی۔ اس لیے میں نے تم کو معاف کیا۔ اگر تم زاہدہ کو مجھ پر سوت بنا کر لے آتے تو بھی معاف کردیتی۔‘‘

وہ نرکل کے درخت کی طرح لرز رہی تھیں۔ ان کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا ہوا تھا۔ دو رنگی شال شانوں سے ڈھلک گئی تھی۔ سرخ بالوں میں برابر سے پروئے ہوئے چاندی کے تار جگمگا رہے تھے، اور مجھے محسوس ہورہا تھا، جیسے زندگی رائگاں چلی گئی جیسے میری بیوی نے مجھے اطلاع دی ہو کہ میرے بچے، میرے بچے نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3