آوارہ کتے، چمگادڑ اور کم عمری کی کامیابی


نیا پاکستان ہے۔ ہر کسی کو نقل و حرکت کی مکمل آزادی ہے۔ انسان اور حیوانات دونوں، دن کی روشنی اور رات کے اندھرے میں کسی بھی جگہ یا عمارت میںداخل ہو سکتے ہیں۔ گز شتہ کئی مہینوں سے میں آوارہ کتوں کے شاہانہ طرز زندگی کا گہرائی سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔ آپ بے شک اسے آوارہ کتے کہیں، میں ان کو اینمل سٹریٹ چلڈرن سمجھتا ہوں (Animal Street Children)۔ جو عیاشی کھلے ماحول میں آوارہ کتے یعنی اینمل سٹریٹ چلڈرن کرتے ہیں، وہ محلات میں مقیم ’مو ٹو‘ کو کہاں میسر؟ چند مہینوں سے آوارہ کتوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے، اگر ان کی خواہشات کی فہرست مجھے مرتب کرنی پڑے، تو ان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ ان کو بھونکنے کی آزادی ہو۔ بس دن میں چوبیس گھنٹے۔ مہینے میں تیس دن اور سال میں مکمل بارہ مہینے۔

میرے خیال میں ڈرائنگ رومز میں پلے کتے اس عیاشی سے مکمل بے خبر ہے۔ آوارہ کتوں کی دوسری بڑی خواہش اور عیاشی بلا روک ٹوک اور آزادی سے گھومنا ہے۔ وہ اس بنیادی حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس بڑے گھروں میںرہائش پذیر کتوں کی مثال دفتری بابو کی طر ح ہے۔ گھر، دفتر اور فارغ وقت میں گلے میں غلامی کا طوق ڈال کر مالک کے ساتھ پارک میں واک۔ لیکن اس چہل قدمی کے دوران بھی ’مو ٹو ’ کو نہ بھونکنے کی آزادی ہو تی ہے اور نہ ہی اپنی مر ضی سے دوڑ لگانے کی۔

چند روز قبل اخبار ات میں ایک تصویر چھپی کہ رات کے اندھرے میں آوارہ کتے اسلام آباد ائیر پورٹ کی عمارت میں گھس گئے۔ داخل کیا بلکہ وہاں سکون اور اطمینان کے ساتھ مٹر گشت بھی کر رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ اندر کا کوئی ساتھ دے رہا ہے۔ لیکن اس سے بھی ایک دو دن پہلے اخبار میں ایک اور تصویر چھپی تھی کہ وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہریار آفریدی نے اسی ائیر پورٹ کا رات کے اندھرے میں شب خوابی کے لباس میں اچانک دورہ کیا تھا۔ دورے کی بجائے آپ چھاپہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

اس چھاپہ نما دورے میں انھوں نے سیکیورٹی کا جائزہ بھی لیاتھا۔ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آوارہ کتوں نے وفاقی وزیر مملکت کے اچانک دورہ نما چھاپے کا برا منایا تھا، اوراس دخول سے ان کو بتانا مقصود تھا کہ آئندہ رات کو اگر آنا بھی ہو تو لباس پہن کر آیا کریں، اس لئے کہ رات کے اندھرے میں آوارہ کتوں سے بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ ویسے ایک بات ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ دشمن جب چاہے کہیں بھی گھس جاتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ آوارہ کتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ اس لئے کہ یہی بغیر تنخوا کے چوکیدار ہے۔

ان کی قدر اس لئے بھی کرنی چاہیے کہ ایک سابق کمانڈو صدر پرویزمشرف کو انسانوں پر بالکل بھر وسہ نہیں۔ ملک کی جملہ عدالتیں ان کو بلا رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ، عدالت عالیہ، خصوصی عدالت اور نہ جانے اور کتنی عدالتیں ان کو آوازیں دے رہی ہے۔ ہر قسم کی حفا ظت کی یقین دہانی ملک کی سب سے بڑی عدالت کر چکی ہیں۔ علاج کی سہولت۔ حتیٰ کہ گھر کی صفائی کا جائزہ لینے کے لئے ایک عدد وفاقی وزیرنعیم بخاری کی ڈیوٹی بھی لگائی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ ملک کے کسی بھی ہوائی اڈے پر اترنے سے خوف محسوس کر رہے ہیں۔ ویسے سابق کمانڈو صدر کو بھی کتوں سے پیار ہے۔ ممکن ہے کہ اسلام آباد ائیر پورٹ کے یہی آوارہ کتے ان کے آنے کا سبب بن جائیں۔ لیکن مجھے لگ نہیں رہا۔ اس لئے کہ وہ آوارہ کتوں کو پالنے کا شوقیں نہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ’مو ٹو‘ جیسے کتوں سے پیار کیا ہے۔ جو نہ بھونکتے ہیں اور نہ ہی مالک کے اجازت کے بغیر دوڑ تو کیا چہل قدمی کر سکتے ہیں۔

جس دن اخبارات میں آوارہ کتوں کی تصویر چھپی اسی روز یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی کہ نیو اسلام آباد ائیر پورٹ پر قومی ائیر لائن کے جہاز میں چمگادڑ گھس گئی تھی۔ چمگادڑ نے گھسنا ہی تھا۔ ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ پی آئی اے میں جعلی ڈگری والے بھی اڑان بھرتے ہیں۔ نیا پاکستان ہے کوئی بھی ڈگر ی چیک کر سکتا ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ یہ چمگادڑفارغ الخدمت تھیں۔ پھر بھی از خود نو ٹس لے کر اندرگھس گئی۔ شاید بیچارے کو معلوم نہیںتھا کہ جب تک عہدہ ہے، اپ چھاپے مار سکتے ہیں، از خود نوٹس لے سکتے ہیں، لیکن ریٹا ئرڈ ہونے کے بعد یہ سہولت ختم ہو جاتی ہے۔

پھر کوئی بھی آپ کو کسی ڈیم کے کنار ے چھونپڑی بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی اور گھس گئی جہاز میں۔ پھر کیا ہوا؟ مار دیا ان کو۔ اس پر بھی بس نہیں کیا۔ لاش بھی ورثاء کے حوالے نہیں کی، اور نہ ہی قبر کا کوئی اتہ پتہ۔ کسی نے درست ہی کہا تھا کہ یہ بد معاش ہے۔ انھوں نے لوگوں کو ڈرانے کے لئے بدمعاشی کے اڈے عشروں سے مستحکمکیے ہیں۔ یہ ہر طاقتور کے یار ہو تے ہیں۔ ذاتی مفاد کے لئے وفاداریاں بدلنا تو کیا، یہ یتیموں، بیواوں اور غریبوں کی جا ئیداد پر قبضہ بھی کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان کی راستے کا روکاٹ بن جا تے ہیں ان کو ہٹانے کا ہنر بھی چھی طر ح سے جانتے ہیں۔

یہ اتنے طا قتور ہو جاتے ہیں کہ مقابلے میں شمو لیت کے حق دار بھی نہیں ہو تے، لیکن پھر بھی مقابلے میں حصہ تو کیا اس کو جیت بھی جاتے ہیں۔ ان کی طاقت کا کمال دیکھیں کہ اپنے سے زیادہ منجھے اور طاقتور کھلاڑی کو پچھاڑ دیتے ہیں۔ اخبار میں خبر لگی ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو قومی انتخابات میں صوبائی نشست پر شکست دینے والے کی کامیابی کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ قاضی کا فیصلہ بھی عجیب ہے۔ دھوکہ کرنے والے کم عمری کھلاڑی کی صرف کامیابی کو کالعدم کیا ہے۔ یہ پو چھا ہی نہیں اس سرکاری بابو سے کہ کیوں اس کم عمر کو مقابلے کی اجاز ت دی تھی؟ ہونا تو چاہیے تھا کہ اس کو تاہی پر ان کو سزا دیتے۔ لیکن نہیں۔ کم عمر کھلاڑی کو بھی کوئی سزا نہیں دی۔

ایک شخص جھوٹ بولتا ہے۔ سچ کو چھپاتا ہے۔ پھر بھی وہ آزادی سے گھوم رہا ہے۔ کیوں؟ حالانکہ ایسا تو ایک بز دل شخص بھی نہیں کر سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ عمر چھپانا عورتوں کا وطیرہ ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو کم عمر ثابت کرنے کے لئے۔ امید تو یہی تھی کہ مدنی ریاست کا قاضی انصاف کریگا، لیکن نہیں کرسکا۔ اب اس حلقے میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ قومی خزانے سے کروڑوں اس پر خرچ ہوں گے۔ کیا ضروری نہیں تھا کہ یہی تمام اخراجات اس کم عمر طاقتور سے وصول کیے جاتے؟ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جس سرکاری بابو نے یہ سنگین غلطی کی تھی ان کا محاسبہ کیا جاتا؟

قارئین! آپ کو پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔ اب آپ نئے پاکستان کے رہائشی ہیں۔ یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میزبان آپ کا پرس بھی چوری کرسکتا ہے۔ بس آنکھیں بند کرکے پانچ سال انتظار کی گھڑیاں گنتے جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی ہر طرح سے آزادی مل جائے۔ بات کرنے کی آزادی تو پہلے سے میسر ہے۔ امکان یہی ہے کہ آپ کو پرواز کرنے کی اجازت ملے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو کم عمری میں ہی خطرات سے کھیلنے کی مکمل تر بیت دی جائے۔ ابھی کل ہی تو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے خبر دار کیا ہے کہ جو چالیس سال تک کچھ نہ کرسکے وہ ہم سے چالیس دنوں کا حساب کیوں مانگ رہے ہیں؟ بس پانچ سال گنتے رہنا ہے۔ حساب نہیں مانگنا۔ ورنہ معطل بھی ہوسکتے ہیں اور کامیابی کالعدم بھی کی جاسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).