کینسر کا مرض اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟


دُنیا بھر میں اموات کی تیسری بڑی وجہ کینسر ہے۔ جبکہ آنے والے دس برسوں میں سب سے زیادہ اموات کی وجہ کینسر کی بیماری بن جائے گی۔ اس وقت دُنیا میں ایک کروڑ سالانہ کینسر کے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ بمطابق رپورٹ 2020تک کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ60 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ جبکہ کینسر کی وجہ سے اموات 80 لاکھ ہو جائیں گی۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ مرض بہت تیزی سے پھیلا رہا ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف قسم کے کینسر پائے جاتے ہیں وطن عزیز میں بریسٹ حلق منہ ہونٹ جگر پِتے کی نالیوں برین کینسر بڑی آنت کا کینسر پھپھڑوں کا کینسر جلد کا کینسر اووری کے کینسرز شامل ہیں۔ وطن ِ عزیز پاکستان آزاد کشمیرمیں بھی یہ مرض بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔

ایشیاء میں سب سے زیادہ چھاتی کے سرطان میں پاکستان سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین میں کینسر کے زیادہ کیسز سامنے آتے ہیں جن میں چھاتی کا کینسر سب سے زیادہ اور خطرناک ہے۔ وطن ِ عزیز میں ہر نویں خاتون کو چھاتی کے کینسر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ہر سال 90 ہزار خواتین چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں جن میں سے 40 ہزار ہر سال اس مرض سے جان جان ِ آفریں کے سپرد کر جاتی ہیں۔ پاکستان میں سرطان کے 14 لاکھ مریض ہیں جن میں سے 80 ہزار ہر سال اس مہلک بیماری کے ہاتھوں جان کھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں 8000 ہزار بچے کینسر کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن میں 40 فیصد بچوں کو خون کا کینسر جبکہ 20 فیصد کو غدود کا کینسر ہوتا ہے۔

اب نئی عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں پاکستان میں کینسر کی 36 اقسام سے 01 لاکھ 18 ہزار 442 افراد موت کی وادی میں جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 17 ہزار 158 منہ کے کینسر 13 ہزار 351 پھپھڑ وں کے کینسر سے 9 ہزار 260 خوراک کی نالی کے کینسر 7 ہزار 555 خون کا کینسر 4 ہزار 945سفید خلیے کا کینسر 4 ہزار 818 خواتین کے اعضاء کا کینسر 3 ہزار 861 مثانے کا 02 ہزار 614 پروسٹیٹ کینسر03 ہزار 417 بچہ دانی کا کینسر 3 ہزار 326 جگر کا 4 ہزار 222 گلے کا 2 ہزار 442 دماغ کا کینسر 4 ہزار 33 پیٹ کا 03 ہزار 923 پِتے کا کینسر 2 ہزار 189 بڑی آنت کا 2 ہزار 181 رحم کا 1 ہزار 139 بڑی آنت کا 2 ہزار430 جلد کا ا ہزار 156 گردوں کا 1 ہزار 329 تھائرائیڈ کا کینسر 434جانیں لقمہ ِ اجل بنائے گا۔ اس منڈلاتے خطرے کے باوجود ہمارے پاکستان میں کینسر کے ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 80 فیصد کینسر کے مریض بروقت علاج اور تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اور پھر آزاد کشمیر میں کینسر کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تقریباً 40 لاکھ افراد اور دس اضلاع میں کوئی بھی کینسر کا ہسپتال موجود نہیں ہے۔

ہمارے ہمسایہ ممالک میں کینسر کے ہسپتالوں کی تعداد ہم سے کئی گناء زیاد ہ ہے۔ نئی دہلی بھارت کے درالحکومت میں 10کینسر کے ہسپتال چندی گڑھ میں 13 ایران کے دارلحکومت تہران میں 10کینسر ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ کوئی بھی وباء حادثاتی نہیں رونما ہوتی۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 2008۔ 09 میں پوری دُنیا میں 04 ملین ڈائریا کے کیسز درج کیے گئے اور تقریباً8 ہزار اموات ایک دن میں ریکارڈ کی گئی۔ کینسر کی جہاں اور بہت سی وجوہات جن میں غیر معیاری کھادیں زرعی ادویات ملاوٹ کی غیر معیاری خوراک کینسر ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے وائرل انفیکشنز فضائی آلودگی انلاٹوکس تاب کاری اثرات غذائی آلودگی فوڈ کیمیکلز زہریلا دھواں شیشہ کا استعمال سگریٹ نوشی کے باعث 15اقسام کے کینسر ہو سکتے ہیں۔

ان سب سے اہم وجہ پانی کا آلودہ ہونا ہے جس کے استعمال سے پانچ بڑی جان لیوا امراض میں سے ایک کینسر کا مرض ہے۔ صحت کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 2005سے لے کر 2015تک آٹھ کروڑ 40 لاکھ افراد اس جان لیوا بیماری سے نبردآزماء ہو چکے۔ جب کہ 2032تک ان کی تعداد میں14 ملین سے بڑھ کر 22 ملین سے متجاوز ہو جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پاکستانیوں میں سے 98مرد اور 128خواتین کیسز کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کینسر کی مہلک بیماری کے حوالہ سے st۔ Louis میں واشنگٹن یونیورسٹی آف میڈیسن کے ڈاکٹر Grahan Colditzنے کہاکہ زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ تمباکو نوشی اور غیر صحت مندانہ زیست کا انداز (طرزِ زندگی )سرطان کے مرض کی بنیادی وجوہات ہیں۔ علاوہ ازیں جسمانی حرکت یا ورزش میں کمی موٹاپا وزن میں تیزی سے اضافہ یہ امریکہ میں کینسر کے 20 فیصد یا اس سے زائد کینسر کا باعث بنتے ہیں

اور پھر متواتر اور باقاعدگی سے بروقت علاج سے 95 فیصد جلد کے کینسر کے مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ اکثر عوام کو اس مہلک مرض کا علم ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی عام لیبارٹری ٹیسٹ سے اس مرض کی تشخیص ہو پاتی ہے۔ دیہائی علاقوں میں مریضوں کو اس مرض کی اس وقت آگاہی ہو تی ہے جب کہ اس کا کنٹرول ہونا ممکن نہیں رہتا جس کی وجہ سے کئی انسانی جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ آلودگی باعث کنیسر ہیپاٹائٹس جس سے ہر 14واں پاکستانی متاثر ہے ٹی بی سانس کی بیماریوں اور دیگر موذی بیماریاں جنم دے رہی ہے آلودگی کی وجوہات میں انڈسٹری کی سطح پر زہریلی گیسوں کا بکثرت استعمال جنگلات کی بے دریغ کٹائی فاضل مادے پلاسٹک بیگز کا استعمال گندگی دریاوں میں کوڑا کرکٹ ڈالنا ماحول کو صاف نہ رکھنا دھواں چھوڑتی گاڑیاں بے مہار انداز میں مسلسل آبادی میں اضافہ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں جو ہمارے ماحول کو زہریلا کر رہے ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی بقاء کی خاطر ہمیں انسانی زندگی کو لاحق خطرات کے خلاف بند باندھنا اور اس مہلک امراض سے انسانیت کی حفاظت کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ عوام میں شعور و آگاہی کے لیے میڈیا سب سے موثر ذریعہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).