غیر جبری گمشدگیوں کے کچھ اعلانات


خبر کی منڈی میں مندے کا رجحان ہے۔ وجہ یہ کہ حکومت، ریاستی ادارے اور اہل صحافت کچے دھاگے سے بندھے ایک ہی صفحے پہ رکھے ہیں اور اس صفحے پر اس تیزی سے دھول جم رہی ہے کہ سراج اورنگ آبادی یاد آتے ہیں۔ نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی، جو رہی سو بے خبری رہی…. ادھر ادھر سے چھوٹے چھوٹے کنکر تالاب میں گرتے ہیں اور نشان چھوڑے بغیر گمنامی کے پانی میں اتر جاتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ ڈاکٹر پروفیسر علامہ طاہر القادری کے دست راست خرم نواز گنڈا پور نے کس سہولت سے انکشاف کیا کہ 2014ء کے ابتدائی مہینوں میں عمران خان، پرویز الہٰی، چوہدری شجاعت اور طاہر القادری نے لندن میں ملاقات کر کے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت کو گرانے کے لئے دھرنے دئیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ موجودہ وزیر اعظم گذشتہ پانچ برس سے ایسی کسی ملاقات یا لندن پلان سے دوٹوک انکار کرتے رہے۔ خرم نواز گنڈا پور کے ردعمل میں ایم کیو ایم کے سابق راہنما علی رضا عابدی نے تصدیق کی کہ طاہر القادری نے ایم کیو ایم کو بھی دھرنوں میں شریک ہونے کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ وہ فیصلہ ساز قوتوں کی تائید سے یہ پیشکش کر رہے ہیں کہ نواز حکومت گرانے کے بعد سندھ کی صوبائی حکومت ایم کیو ایم کے سپرد کر دی جائے گی۔ حیران کن طور پر خرم گنڈا پور اور علی رضا عابدی کے انکشافات سیاسی مباحث میں اتنی جگہ بھی نہیں پا سکے جتنی چھیالیس برس قبل ستمبر 1972 کے مبینہ لندن پلان کو ملی تھی۔

ستمبر 1972 میں لندن ٹائمز نے خبر دی تھی کہ عبدالولی خان، محمود ہارون، ملک غلام جیلانی اور عطا اللہ مینگل وغیرہ نے لندن میں بیٹھ کر ایک پلان تشکیل دیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کر کے کنفیڈریشن بنانا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ایک برس بھی نہیں گزرا تھا۔ قوم میں داخلی اعتماد کی شدید کمی تھی۔ بھٹو صاحب نے لندن پلان کی خبر کو خوب اچھالا تاکہ حزب اختلاف کو وطن دشمن ثابت کیا جا سکے۔ ہماری الجھی ہوئی تاریخ میں حقیقت اور کھلے جھوٹ میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ 1972 کا لندن پلان محض من گھڑت شوشا تھا۔ 2014ءکے لندن پلان کی کی گواہی اب شریک جرم دے رہے ہیں۔ بہت سے حقائق بیان کرنا بوجوہ ممکن نہیں لیکن سامنے کی بات ہے کہ جولائی 2012 میں طاہر القادری ’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘ کا نعرہ لگا کر ایک طوفان بلاخیز کی صورت ملک میں وارد ہوئے۔ فروری 2013 میں قادری صاحب دھرنا لے کر اسلام آباد پہنچ گئے۔ جون 2014 میں ایک طرف ضرب عضب کا اعلان کیا جا رہا تھا، دوسری طرف طاہر القادری لندن ائیر پورٹ سے خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے۔ لاہور میں کئی گھنٹے تک لاشیں گرتی رہیں۔ یہی لاشے اٹھا کر قادری صاحب مہینوں اسلام آباد میں بیٹھے رہے۔ اب جب کہ انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے نیز عدالت نے طاہرالقادری کے نامزد ملزمان کو بے قصور قرار دے دیا ہے۔ طاہر القادری وطن واپس کیوں نہیں آتے؟ وطن کی زمین اور شہیدوں کا لہو ان کے منتظر ہیں۔ طاہر القادری کہاں گم ہیں؟ کیا ان کا اسم گرامی بھی ان گمشدہ ناموں کی فہرست میں شامل کر لیا جائے جو بلا جبر و اکراہ وطن چھوڑ گئے ہیں اور نامعلوم ٹھکانوں میں بیٹھے غیرشفاف جدوجہد کر رہے ہیں۔

ایسا ہی ایک نام الطاف حسین کا ہے جنہیں اب بانی ایم کیو ایم کہا جاتا ہے۔ کبھی قائد تحریک وغیرہ کہلاتے تھے۔ 1984 سے 22 اگست 2016 تک ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی پر نام کسی آسیب کی طرح چھایا رہا۔ ہزاروں لاشیں گریں۔ مہاجر، سندھی، پنجابی اور پختون وقفے وقفے سے خون کی ہولی کھیلتے رہے۔ 1988 سے 1999 تک ایم کیو ایم کا درجہ حرارت حکومتوں کے آنے اور جانے سے بندھا رہا۔ مثال کے طور پر 1990 میں بے نظیر بھٹو حکومت کا چل چلاؤ تھا۔ 26 مئی 1990 کو پکا قلعہ حیدر آباد میں نامعلوم افراد کی اندھا دھند فائرنگ سے 17 شہری مارے گئے۔ اگلے روز حیدر آباد میں پچاس افراد ہلاک ہوئے۔ ادھر دو روز میں کراچی میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے۔ الطاف حسین نواز حکومت کا حصہ تھے لیکن کچھ ریاستی اہل کاروں کی ریٹائرمنٹ سے ایسا رن پڑا کہ جنوری 1992 میں الطاف حسین نے لندن میں سیاسی پناہ لے لی۔ الطاف حسین نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ عباسی شہید ہسپتال میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل اور بریگیڈئیر امتیاز بلا نے انہیں نوٹوں سے بھرے بریف کیس رشوت میں دینے کی کوشش کی تھی۔ مرحوم حمید گل اور بریگیڈئیر امتیاز نے بعدازاں اس دعوے کی توثیق کی۔

ایم کیو ایم کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی۔ 18 جولائی 1992 کو فوج کے ترجمان بریگیڈئیر ہارون نے جناح پور سازش کے نقشے دریافت کرنے کا اعلان کیا۔ بریگیڈئیر ہارون ہی نے 19 اکتوبر 1992 کو ایک پریس ریلیز جاری کی جس کے مطابق ’فوج کے پاس نام نہاد جناح پور منصوبے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ اس ضمن میں اخباری اطلاعات بے بنیاد ہیں۔ فوج نے حکومت کو نام نہاد جناح پور منصوبے کے بارے میں نہ کوئی دستاویز دی ہے اور نہ کوئی نقشے تحویل میں لیے ہیں‘۔ حیران کن طور پر پرویز مشرف حکومت میں آٹھ برس تک ایم کیو ایم ایک پرامن سیاسی تنظیم کے طور پہ کام کرتی رہی۔ تمثیل کا اگلا حصہ شروع ہوا تو بارہ مئی 2007 کو کراچی میں ایک ہی روز پچاس لاشیں گریں۔ اگلے دس برس قتل و غارت نیز منظم جرائم اور امن و امان کی بدحالی سے عبارت تھے۔ سوال یہ ہے کہ بائیس اگست 2016ءکے بعد ایم کیو ایم کے مجرمانہ تشخص کو جس طرح ختم کیا گیا، یہ تیس برس میں کیوں نہیں ہو سکا؟ کیا یہ حقیقت دلچسپ نہیں کہ کٹی پھٹی اور تراشیدہ ایم کیو ایم آج بھی وفاقی کابینہ کا حصہ ہے۔ گذارش یہ ہے کہ غیر جبری گمشدگیوں کی فہرست میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تین دہائیوں پہ محیط معیشت، سیاست اور تمدن کا لہو بھی درج کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو ان دسیوں ہزار شہریوں کی ایک یادگار ہی تعمیر کر دی جائے جن کے بارے میں یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی گولی انہیں چاٹ گئی یا وہ فرقہ وارانہ فساد کے شعلوں میں جل گئے یا انہیں ریاستی اداروں نے مٹا ڈالا یا محض راہ چلتے اندھی گولیوں کی لپیٹ میں آئے۔ کراچی شہر کا المیہ مشرقی پاکستان کے سانحے سے کم نہیں۔ وطن کے جسد اجتماعی پر یہ دونوں گھاؤ لگانے والے خنجر پر انگلیوں کے ایک جیسے نشانات ہیں۔

2011ء سے 2015 تک ملک میں ہر دوسری گاڑی کی نمبر پلیٹ پہ عربی رسم الخط میں ’الباکستان‘ لکھا تھا۔ اب کسی گاڑی پہ یہ تحریر نظر نہیں آتی۔ یہ الباکستان کیا تھا؟ اسے گاڑیوں کی زینت بنانے والے کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟ یہ الباکستان اچانک کہاں گم ہو گیا؟ اس کا نام بھی غیر جبری گمشدگیوں میں لکھنا چاہئیے۔ اسی طرح 2007 سے 2012 تک ہمارا سیاسی مکالمہ کالے کوٹ کے ہاتھوں یرغمالی تھا۔ کہا جاتا تھا کہ جو کام سیاست دان نہیں کر سکتے، کالے کوٹ میں ملبوس مخلوق وہ کام کر دکھائے گی۔ ریاست کو ماں جیسی شفیق چھتنار چھاؤں بنا دے گی۔ اب ریاست گمبھیر سیاسی اور معاشی بحران کی زد میں ہے۔ حب الوطنی کا نشان کالا کوٹ کہیں نظر نہیں آتا۔ ہم ان دنوں گم شدہ اثاثے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس فہرست میں کہیں کالے کوٹ کی گمشدگی بھی درج کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).