حمید احمد اور محمد علی کلے


\"hasan\"ازل سے ابد تجھی کو جانا

تیرے سوا کسی کو نہ مانا

اور کہیں آﺅں نہ آﺅں میں

تیرے پاس ہے مجھ کو آنا

یہ حمید احمد صاحب کی فیس بک پہ آخری پوسٹ ہے۔ انہیں ہفتے کے دن چند نا معلوم مسلح افراد نے اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا ، جس وقت، حمید صاحب کے باقی ہم وطن، محمد علی کلے کی موت کا سوگ منا رہے تھے۔ اس سے کچھ دن پہلے کراچی کے داﺅد احمد صاحب کو بھی اسی طرح نامعلوم افراد کی گولیاں چاٹ گئی تھیں۔

حمید احمد صاحب، طب کے شعبے سے وابستہ تھے۔ ایک سمجھدار لکھنے والے کی طرح میں اس بحث میں تو اتروں گا ہی نہیں کہ جماعت احمدیہ کے لوگ مذہب کی لکیر کے کس طرف ہیں۔۔۔ پارلیمان کے پاس یہ استحقاق کیسے آ گیا کہ وہ فرد اور خدا کے مابین حد بندی شروع کرے، سنہ 1974 کے اس فیصلے کے پیچھے ملک کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے کتنا بایاں کردار ادا کیا ۔۔۔ کیا یہ فیصلہ صریحا اندرونی دباﺅ پہ ہوا یا اس میں مملکت کی کچھ خارجی مجبوریاں بھی شامل تھیں ۔۔۔ ایک بات مگر طے ہے کہ محمد علی کلے ایک عظیم آدمی تھے کیونکہ انہوں نے تمام انسانوں کی قدر کرنے کا سبق دیا۔

\"13401170_1368911316459690_879053802_n\"اس ملک میں اس جماعت کے لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں، اس کا تجربہ صرف اس وقت کیا جا سکتا ہے جب آپ خود اقلیت کے قالب میں اتریں۔ نام کے انتخاب سے تعلیم کے حصول تک، یہ ایک ایسی جنگ ہے جو یہ لوگ ہر روز لڑتے ہیں۔ مگر یہ ہمارا مسئلہ نہیں کیونکہ محمد علی کلے کو اسلام کی امن پسندی نے اس آفاقی پیغام کی سچائی کا یقین دلایا تھا۔

ابھی کچھ سال پہلے امریکا سے آئے ڈاکٹر قمر علی مہدی کو بھی ربوہ میں انہی نامعلوم افراد نے زندگی سے ایسے ہی بے دخل کر دیا تھا جیسے ہم سب اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے دلوں میں پورے خشوع خضوع سے اس جماعت کے لوگوں کو اسلام سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ نا معلوم افراد کون ہیں، کہاں سے آتے ہیں اور ہمیشہ دو کی ٹولیوں میں موٹر سائکلوں پہ کیوں سفر کرتے ہیں، اطمینان سے اپنے ہدف کو کیسے نشانہ بناتے ہیں اور پھر یہ جا ، وہ جا، کسی قانون نافذ کرنے والے کو ان کا نشان تک نہیں ملتا۔۔۔

اور جماعت احمدیہ کے لوگوں کو بھی تو دیکھیں، نہ کوئی جیش بناتے ہیں نہ کوئی سپاہ۔۔۔ انہوں نے ایک عجیب راستہ اختیار کر لیا ہے، پہلے عبدالسلام نے نوبل انعام لے کر دنیا کو دنگ کیا، اب عاطف میاں کا نام اقتصادیات کے حوالے سے اگلے نوبل انعام کے لئے لیا جا رہا ہے۔۔۔ محمد علی کلے نے ایک بار کچھ کہا تھا جو انگریزی میں ہی اچھا لگتا ہے

I am America. I am the part you won\’t recognize. But get used to me. Black, confident, cocky; my name, not yours; my religion, not yours; my goals, my own; get used to me…..


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments