بعض حلقوں کے خیال میں پرانے میڈیا گروپ زیادہ بھاری ہوگئے تھے: کامران خان


کامران خان پاکستان کے نامور صحافی اور اینکرپرسن ہیں۔ وہ چار دہائیوں سے صحافت میں ہیں اور متعدد بڑے اسکینڈل بے نقاب کرچکے ہیں۔ ان کا شمار ایسے چند صحافیوں میں ہوتا ہے جو پرنٹ کے بعد الیکٹرونک میڈیا میں بھی کامیاب رہے۔ ان کا پروگرام عوام میں مقبول ہے اور ان کی رائے کو مقتدر حلقوں میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

کامران خان عام طور پر کسی کو انٹرویو دینا پسند نہیں کرتے اور ویسے بھی آج کل بیرون ملک تعطیلات پر ہیں۔ لیکن میں نے فون کیا تو راضی ہوگئے۔ میں نے پہلا سوال کیا کہ پاکستان میں میڈیا کا حال کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ پھر نئے نیوز چینل کیسے آرہے ہیں؟

کامران خان نے بھی تعجب کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ”جی ہاں۔ نئے نیوز چینلوں کی بھرمار کیوں ہے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جو نیوز چینل پہلے سے موجود ہیں، ان کے مالی حالات دیکھیں تو ایسا نہیں لگتا کہ یہ منافع بخش کاروبار ہے۔ اس صورتحال میں اتنے تواتر سے نئے نیوز چینل کا آنا، کم از کم کاروباری سمجھ بوجھ کے مطابق نہیں۔ اگر نئے چینل معاشرے کی اصلاح کے لیے قائم کیے جا رہے ہیں یا کسی کے ذہن میں کوئی اور پہلو ہے، تو ہم نہیں جانتے۔ کئی درجن نیوز چینلوں کی موجودگی سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔

کامران خان نے جیو جنگ گروپ میں تہائی صدی کام کرنے کے بعد 2014 میں بول اور پھر دنیا ٹی وی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ حال میں سینئر صحافی حامد میر بھی ایک نئے چینل میں گئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ بڑے صحافی کیا سوچ کر ادارہ بدلتے ہیں؟ خاص طور پر نئے چینل میں جانے کا رسک کیوں لیتے ہیں؟

کامران خان نے اپنا تجربہ بیان نہیں کیا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ہر پیشہ ور صحافی کی ترجیحات مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ پہلی ترجیح زیادہ معاوضہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی پرانا میڈیا گروپ ہو تو اس کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن، اگر نیا ادارہ ہو تو پھر صحافی کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ نئے ادارے کو مثال بنانا چاہتا ہو۔ ممکن ہے کہ موجودہ ادارے اس کے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں۔ لیکن، بہرحال بہتر معاوضے کا کردار ضرور ہوتا ہے۔

میں نے تبصرہ کیا کہ نئے نیوز چینل دھڑا دھڑ بن رہے ہیں۔ لیکن پرانے چینلوں کا حال اچھا نہیں۔ تنخواہیں تاخیر سے دی جا رہی ہیں اور لوگ بھی نکالے جا رہے ہیں۔ لیکن، ابھی تک کوئی ادارہ بند نہیں ہوا۔

کامران خان نے کہا کہ واقعی ہم نے ابھی تک یہ نہیں دیکھا کہ مالی خسارے کی وجہ سے کوئی ادارہ بند ہوا ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیوز چینلوں کے اسپانسر اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ اس کاروبار میں ان کے پیسے واپس نہیں آئیں گے یا منافع نہیں ملے گا۔ جو بھی اس کی وجہ ہو لیکن یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں مالی خسارے کی وجہ سے میڈیا ادارے بند نہیں ہوئے۔

کسی اور ملک میں ایسا نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ کاروبار اس طرح نہیں کیا جاتا۔ اپنی جیب سے اس قسم کے اداروں کو غیر معینہ مدت تک چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ نہ صرف ادارے بند نہیں ہو رہے بلکہ نئے چینل بھی کھل رہے ہیں۔

میں نے کامران خان کو بتایا کہ گزشتہ روز ضیا الدین صاحب نے انٹرویو میں کہا کہ ریاستی اداروں نے تین مستحکم میڈیا گروپس کو کمزور کرنے کے لیے نئے میڈیا گروپس قائم کیے۔

کامران خان نے جزوی طور پر اس بات کی تائید کی کہ پرانے اور مضبوط میڈیا گروپس کے بارے میں بعض حلقوں کا خیال تھا کہ وہ اپنے وزن سے زیادہ بھاری ہوگئے ہیں، اپنے سائز سے زیادہ بڑے ہوگئے ہیں۔ کاروباری مسابقت الگ معاملہ ہے۔ لیکن یہ سوچ موجود تھی کہ پرانے میڈیا گروپس کے اثر کو محدود کیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ سوچا گیا کہ اگر کچھ بزنس مین اس شعبے میں آنا چاہ رہے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ آج ہم جو بہت سے نیوز چینل دیکھ رہے ہیں تو اس کی یہ وجہ ہو سکتی ہے۔ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بشکریہ وائس آف امریکہ

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi