رانا مشہود سے لے کر شہباز گرفتاری تک !


شریف خاندان نظریاتی طور پر دو دھڑوں میں اس وقت تقسیم ہوا جب ڈی چوک میں ”گو نواز گو“ کے فلک شگاف نعرے ایک سو دنوں سے تجاوز کرنے لگے۔ اس سے پہلے ایک ”اشتہاری کمانڈو“ کو ہتھکڑی لگانے یا نہ لگانے پر دو بھائیوں کا محض اختلاف تھا، خاندان کی تقسیم نہیں۔ انگلی والے ایمپائر کی موجودگی، فیض حمید کی نامزدگی، چند ریٹائر جرنیلوں کا قضیہ وغیرہ وغیرہ امور تک صرف اختلاف ہی تھا۔ ”اب کرنا کیا چاہیے“ یہ چیز اس حکمران خاندان کی باہمی تقسیم کے لیے پہلا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔

اب ”ان لوگوں“ کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانی ضروری ہے، یہ تھا نواز شریف خاندان کا موقف جبکہ شہباز شریف خاندان مفاہمت کے حق میں تھا، تحریک نہیں۔ چنانچہ نظریہ خلائی مخلوق سے تحریک شروع ہوئی، ڈان لیکس سے ہوتے ہوئے ”ووٹ کو عزت دو“ پر منتج ہوئی۔ شہباز شریف خاندان اس تحریک سے الگ ہی نہیں مخالف بھی تھا، کہا جاتا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز گرفتاری دینے جب آئے تو استقبالی لوگوں کے ہجوم کو شہباز شریف کا چکمہ دینا بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔

شاید اب تک کی صورت حال نواز شریف کے لیے قابل برداشت تھی، مگر جب شہباز شریف نون لیگ کے صدر بنے اور اپنا بیانیہ نون لیگ پر مسلط کرنے کی پوزیشن میں آ گئے جس کی ایک جھلک الیکشن دھاندلی پر شہباز شریف کی پالیسی میں نظر آ چکی تھی تو نواز شریف کو لگا کہ مسلم لیگ نون کھوکھلی ہو چکی ہے، اکثریت رہنماؤں کی شہباز سے نالاں ہے، جماعت ٹوٹ سکتی ہے۔

سنگینی بڑھ رہی تھی، نواز شریف خود نون لیگ کے صدر بن نہیں سکتے، قانونی رکاوٹ ہے۔ شہباز شریف سمجھتے نہیں۔ اب ایک صورت تھی کہ کھل کر شہباز کی مخالفت کرتے اور شہباز کو پارٹی صدارت سے فارغ کروا دیتے مگر ظاہر ہے کہ پارٹی دو ٹکڑے ہو جاتی۔ آخری حل تھا رانا مشہود۔

جی ہاں! نواز شریف کا موقف تھا (قطع نظر اس سے کہ یہ موقف صحیح ہے یا غلط) کہ اصل گیم اسٹبلشمنٹ کی ہے، لہذا انہیں ہی چھیڑ کر شہباز شریف کو سبق پڑھایا جائے، چنانچہ رانا مشہود نے میاں صاحب کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مرکزی کردار ادا کیا اور قوم کو ایک ایسا تاثر دیا جس کو مٹانے اور جھوٹا ثابت کرنے کے لیے اداروں کی طرف سے شہباز شریف کے خلاف فوری کارروائی ناگزیر ہو گئی تھی تاکہ بتایا جا سکے کہ رانا مشہود کے اسٹیٹمنٹ کے بیان کے مطابق اگر نواز شریف کو سزا دراصل اسٹبلشمنٹ دے رہی ہوتی اور شہباز شریف اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ ہوتے تو ہر گز نواز کی طرح شہباز کا بھی نمبر نہ آتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یوں نواز شریف نے اداروں کو چکمہ دے کر ایک خطرناک سیاسی وار کیا ہے اور ساری لیگ کو اپنا حامی بنا کر ایک نقطہ پر اکٹھا کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).