ڈبل شاہ سے پے ڈائمنڈ تک، چالیس کروڑ کا ایک اور ٹیکہ


آپ نے ڈبل شاہ کا نام تو سنا ہوگا ،اگر نہیں سنا تو گوجرانوالہ کارہائشی سبط الحسن شاہ جس نے پیسے ڈبل کرنے کا جھانسہ دے کر صرف اٹھارہ مہینوں میں ستر ارب روپے کمایا تھا۔

وہ شروع شروع میں پندرہ دن کے اندر چھوٹی موٹی رقم ڈبل کرکےواپس کر دیتا تھا،جس کی وجہ سے لوگوں نے ان پر مکمل اعتماد کیا،اور بڑے پیمانے پر پیسے لگائے۔ جب ڈبل شاہ کا پیسے ڈبل کرنے کا کاروبار اپنے عروج پر تھا،تو ایک اخبار نے ان کو بے نقاب کردیا۔ڈبل شاہ گرفتار ہوئے اور دو ہزار بارہ کو احتساب عدالت نے ان کو اقبال جرم کے بعد چودہ سال قید با مشفت سزا سنایا، اور ان کی تمام جائیداد ضبط کرتے ہوئے تین ارب روپے جرمانہ بھی عائد کردیا۔

یہ پاکستان کا میگا مالیاتی سکینڈل تھا۔اس سے پہلے دو ہزار تین میں گلگت میں بک بورڈ نامی ایک بینک کا قیام عمل میں آیا، وہ بینک دیگر بینکوں سے زیادہ منافع دے رہا تھا۔زیادہ منافع کمانے کی لالچ میں لوگوں نے اپنا پیسہ دیگر بینکوں سے نکال کر بک بورڈ می جمع کروانا شروع کردیا۔ کچھ لوگ چھ مہینوں بعد منافع وصول کرتے رہے مگر کچھ کو امیر بننے کی اتنی جلدی تھی کہ منافع بھی فکس کردیا تھا۔ یہ سلسلہ ایک دو سال تک چلتا رہا اور ایک دن پتہ چلا کہ گلگت بلستان کے عوام کے بیس کروڈ سے زیادہ ڈوب گئے۔اس میں سب سے زیادہ ریٹائرڈ فوجی متاثر ہوئے۔

یہی نہیں اس کے بعد بھی گلگت بلستان میں نام بتدیل کرتے ہوئے یہ فراڈ چلتا رہا، اور عوام اس کے جھانسے میں آکر اپنا نقصان کرتے رہے۔ لیکن اس فراڈ اور دھوکےسے کسی نے سبق نہیں سکھا۔ایک سال قبل پے ڈائمنڈ نامی ایک کمپنی منظر عام پر آگئی جس کا سلوگن تھا ہائی ریسک اینڈ ہائی ریٹرن ، ایک لاکھ تیس ہزار لگاو اور ایک سال تک ماہ وار تینتیس ہزار وصول کرو۔اس فارمولے کے تحت ایک سال میں پیسہ ڈبل ہوجاتا ہے، اس بات کی پابندی نہیں کہ بندہ ایک لاکھ لگائے یا ایک کروڑ ،جتنا زیادہ پیسہ اتنا ہی زیادہ منافع پھر کیا تھا کہ لوگوں کی لائینیں لگ گئی۔

کچھ عرصے تک لوگ بھاری منافع وصول کرتے رہے تو دیگر لوگوں کو بھی یقین آیا اور مزید لوگ جھانسے میں آتے گئے۔ اسی دوران ہمارے ایک دوست جو ایک نجی بینک میں ملازمت کررہا ہے اپنے فیس بک اکاونٹ پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا جاری کردہ ایک نوٹس شائع کیا، جس میں کہا گیا تھ اہے کہ ورچوئل کرنسیاں، کوائن، ٹوکن (جیسے بٹ کوائن، لائٹ کوائن، ون کوائن، ڈاس کوائن، پے ڈائمنڈ وغیرہ) کی بطور لیگل ٹینڈر کوئی حیثیت ہے نہ بینک دولت پاکستان نے پاکستان میں کسی شخص یا ادارے کو ایسی ورچوئل کرنسیوں، کوائن، ٹوکن کے اجرا، فروخت، خریداری، تبادلے یا سرمایہ کاری کا مجاز یا اجازت یافتہ قرار دیا ہے، نیز، بینکوں،ترقیاتی مالی اداروں، مائیکرو فنانس بینکوں اور پیمنٹ سسٹم آپریٹرز (پی ایس اوز) پیمنٹ سسٹم پرووائڈرز (پی ایس پیز) کو بی پی آر ڈی کے سرکلر نمبر 3 برائے 2018 کے تحت ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنے صارفین، اکاؤنٹ ہولڈرز کو ورچوئل کرنسیوں، ابتدائی کوائن آفرنگ (آئی سی اوز) ٹوکن کے لین دین کی سہولت نہ دیں۔انتظامیہ نے بھی اشہارات کے زرئعے عوام کو آگاہ کیا کہ اس طرح کے جعلساز کمپنیوں کے جھانسے میں نہ آئے یہ بھاری منافع کا لالچ دے کر لوگوں کے پیسے لیکر رفو چکر ہوجاتے ہیں،لیکن بھاری منافع کمانے والوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

دو مہینے قبل افواہ پھیل گئی کہ پے ڈائمنڈ نامی کمپینی ختم ہوگئی جس پر ان کے نمائیندوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ کمپینی نے اپنا سسٹم اپ گریڈ کرکیا ہے جس کی وجہ سے منافع کی وصولی میں تاخیر ہوگئی ہے تاہم پریشانی والی بات نہیں۔ اب جبکہ پتہ چلا کہ کمپنی غائب ہوگئی اور صرف ضلع غذر سے ہی چالیس کروڈ روپے ڈوب گئے۔اور ان کے نمائیندوں کو پولیس نے گرفتار کرکے تفتیش شروع کردیا ہے۔

اس سے قبل سادہ لوح اور کم سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد ان نوسربازوں کے بہکاوے میں آتے تھے مگر اب کی بار معاشرے کے پڑھے لکھے طعبقے کو چونا لگایا گیا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جعلساز کمپینی میں بھاری منافع کی غرض سے پیسے لگانے والوں میں کالج کے لیکچرار، سکول کے اساتذہ، واعظین، کاروباری حضرات ریٹائڑڈ اساتذہ شامل ہیں۔ کچھ اساتذہ تو اپنے فیس بک پر اس کمپینی کی تہشیر کرتے رہے۔

کہنے کو تو عام سی بات ہے لالچ بری بلا لیکن اس کے اندر بہت بڑا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔ لالچی انسان کبھی کامیاب نہیں ہوتا وہ زندگی کے کسی موڈ پر اپنی لالچ اور حرص سے ایسا مار کھاتا ہے کہ اگلا پچھلا سارا حساب برابر ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).