شکریہ میرے کپتان! بن گیا نیا پاکستان


جی چاہ رہا ہے کہ زار و قطار قہقہے لگائیں اور خوشی کے آنسوؤں کے دریا بہا دیں کیونکہ وہ تبدیلی جس کے لئے ہم نے ووٹ دیے تھے وہ آ چکی ہے۔ نیا پاکستان بن گیا۔ ایک ایسا پاکستان جس میں وزیرِ اعظم سے لے کر ریڑھی والے تک ہر شخص بچت پلان پر عمل کر رہا ہے۔ وزیرِ اعظم کی سفری بچتوں کا راز توفواد چودھری نے افشا کر دیا تھا۔ غریبوں کی بچت کا احوال ہم سنا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وزیرِ اعظم کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہو گی۔ کتنے خوبصورت انداز میں وہ قوم کو بچت کرنا سکھا رہے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے گیس کی قیمت میں 143 فیصد اضافہ، سی این جی کی قیمت میں 22 روپے فی کلو اضافہ، بجلی کی قیمت میں 3روپے 79 پیسہ اضافہ کر دیا۔

اب عام آدمی سوچ سمجھ کر چولہا جلائے گا اور کھانا پکنے سے ذرا پہلے بند بھی کر دے گا۔ گیس کے زیادہ بل کے ڈر کر کچی سبزیاں بھی کھانا شروع کرے گا۔ سائنس دانوں کے مطابق کچی سبزیاں صحت کے لئے زیادہ مفید ہوتی ہیں اس طرح گیس کی بچت بھی ہو گی اور صحت مند پاکستان تشکیل پائے گا۔ سی این جی کا بے دریغ استعما ل نہیں کرے گا۔ کار میں سی این جی نہیں ہوگی تو پیدل چلے گا اور اس طرح ماحولیاتی آلودگی میں کمی ہو گی۔ بجلی کے ہوش ربا بل سے بچنے کے لئے ہر کمرے میں بلب روشن کرنے کے بجائے صرف ایک کمرے میں کم سے کم واٹ کا برقی قمقمہ جلائے گا۔ ٹی وی، کمپیوٹر اور فریج جیسی پُر تعیش چیزوں کو بند رکھے گا۔ اس طرح بجلی کی بچت ہو گی، مستقبل میں لوڈ شیڈنگ کے امکانات بھی معدوم ہوں گے اور مختلف چینلز پر صحافیوں کے غیر ضروری تنقیدی تبصروں سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ لا علمی ویسے بھی ایک نعمت ہے چناں چہ سب کچھ اچھا لگے گا۔

نئے پاکستان میں قومی خزانہ جو بالکل خالی ہو چکا تھا اسے بھرنے کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا گیا ہے پہلے مرحلے میں ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانے کی شرح دو اڑھائی سو سے بڑھا کر دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک کرنا تجویز کر دیا گیا ہے۔ ہمارے عوام چونکہ قانون کی پابندی سے زیادہ جرمانے دینا زیادہ پسند کرتے ہیں لہٰذا دھڑا دھڑ جرمانے کروائیں گے اس طرح قومی خزانہ تیزی سے بھرتا چلا جائے گا۔ موٹر سائیکل ایک خطرناک سواری ہے اور عوام کو یہ شعور دینا بھی ضروری ہے کہ وہ موٹر سائیکل چھوڑ کر میٹرو بس میں سفر کریں اور اپنی جان خطرے میں نہ ڈالیں اگر جرمانے کی شرح کم رکھی جاتی تو وہ غریب جو ادھار پیسے لے کر قسطوں پر موٹر سائیکل خرید کر چلاتے ہیں اور پھر ہر مہینے قسط کے پیسے اکٹھے کرنے کے لئے اپنا پیٹ کاٹتے ہیں، وہ کبھی موٹر سائیکل سے دستبردار نہ ہوتے لیکن شکر ہے کہ ان تک یہ خاموش پیغام پہنچ گیا کہ موٹر سائیکل کی جان چھوڑ دیں اور سکون سے جئیں نہ موٹر سائیکل کی قسط کے لئے پیسے جمع کرنے کا جھنجھٹ نہ پیٹرول ڈالنے کی ضرورت۔ آرام سے میٹرو میں سفر کریں یا پیدل چلیں اور صحت بنائیں۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ جب تک موٹر سائیکل آپ کے گھر میں رہے گی آپ کا دل اس کو استعمال کرنے کے لئے مچلتا رہے گا لہٰذا اسے آگ لگا کر ایسے امکان کو جڑ سے ختم کر دیں۔ لاہور میں دو ذہین غریبوں نے اس کی ابتدا اپنے موٹر سائیکل جلا کر کر دی ہے یعنی نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ لاہور کی ٹریفک بھی بے ہنگم انداز میں بڑھ چکی تھی خاص طور پر بڑی گاڑیوں والے بے چارے بہت تنگ ہوتے تھے اب موٹر سائیکل کم سے کم تعداد میں ہوں گے تو سڑکوں پر ٹریفک کی روانی رہے گی اور گاڑی والوں کا قیمتی وقت بھی بچے گا۔

ہمارے کپتان نے چالیس وزیروں کی فیلڈنگ بھی بڑے اچھے انداز میں سیٹ کی ہے۔ بعض نادان تجزیہ نگاروں نے تنقید کرتے ہوئے اس تعداد کو بہت زیادہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف بچت کرنی ہے اور دوسری طرف اتنے زیادہ وزیر اور مشیر بنانے سے قومی خزانے پر بوجھ پڑے گا۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ ہمارے کپتان ٹیم بنانے میں بہت مہارت رکھتے ہیں یہ کوئی کرکٹ کی ٹیم تو نہیں ہے کہ اس میں صرف گیارہ کھلاڑی ہوں یہ حکومت کی ٹیم ہے کم از کم چالیس کھلاڑی تو ہونے چاہیں۔ در اصل تجزیہ نگار مشہور و معروف علی بابا اور اس کے چالیس چوروں کی ٹیم کی مماثلت کی وجہ سے تنقید کر رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ دس بیس وزیر اور بنائے جائیں تاکہ جیالے اور متوالے علی بابا چالیس چور والا طعنہ نہ دے سکیں۔ بہ ہر حال ان کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جس طرح پچاس دن میں وزیروں مشیروں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہے سو دن پورے ہونے سے پہلے یہ تعداد ستر اسی سے تجاوز کر جائے گی اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ایک اور خوشخبری جو ہمارے کپتان نے سنائی ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم دو سال تک اضافہ نہیں کیا جائے گا اس کے بعد وہ اس کے عادی ہو جائیں گے اور ہر سال تنخواہ بڑھنے کی فکر میں خود کو نہیں گھلائیں گے۔ زراداری اور نواز شریف نے ہر سال مہنگائی بڑھنے کی آڑ میں تنخواہیں بڑھانے کی بدعت ڈال کر قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ ویسے بھی سرکاری ملازمین کی شکایات بھی بہت ہیں کہ وہ محنت نہیں کرتے۔ دفاتر میں کام نہیں ہوتا اب انہیں محنت کی عظمت کو پہچاننا ہو گا۔ ہر سال بجٹ تقریر میں تنخواہ بڑھنے کی آس میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے بجائے محنت کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔ ان سرکاری ملازمین کو چاہیے کہ چھٹی کے بعد شام کو رکشہ چلائیں یا فروٹ کی ریڑھی لگا کر ذرائع آمدن بڑھائیں۔ مہنگائی کا مقابلہ محنت سے کریں تا کہ دنیا میں ایک محنتی قوم کے طور پر نام کما سکیں۔ اتنی خوش آئند تبدیلیوں کے بعد اب ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ وہ نیا پاکستان جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا وہ بن گیا ہے۔ اسی لئے دل سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے ہیں کہ شکریہ میرے کپتان! بن گیا نیا پاکستان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).