نظریاتی چوہا دوڑ میں، میں بھی اک چوہا تھا


سچ تو یہ ہے کہ میں اک معیاری پاکستانی تھا۔ بالکل ویسا، جیسا کہ مجھے میری ریاست نے تخیلق کیا۔ خدا بناتا ہے، ماں پیدا کرتی ہے، ریاست آپ کی شخصیت تخلیق کرتی ہے۔

ہر شخص اپنے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق، خدا کے تصور کے ساتھ جڑا رہتا ہے، اور بہت سارے اس تعلق کو توڑ بھی لیتے ہیں، جڑے رہنا، اور پھر تعلق کو توڑ دینا، دونوں ہی شخصی انتخاب ہوتے ہیں۔

فرد اپنی ماں کے ساتھ ساری عمر جڑا رہتا ہے۔ مگر ماں کے دائرہ اثر سے باہر بھی نکل آتا ہے۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر معاشی ہجرت کرنے والے، ماں سے ساتھ صرف دعا کے دھاگے سے ہی بندھے رہتے ہیں۔

ریاست مگر اک بہت بڑی اکثریت کے ساتھ ساری عمر جڑی رہتی ہے۔ نہ صرف اس اکثریت کے ساتھ، بلکہ اکثریت کی نسلوں کے ساتھ بھی۔ ریاست کی تشکیل کردہ شخصیت کے دائرے میں لوگ اپنی ساری ساری زندگیاں گزار دیتے ہیں، اور اسی تشکیل کردہ شخصیت کے زیراثر، اپنی آنے والی نسلیں بھی تخلیق کرتے ہیں۔

مجھے اپنے گھر میں، اک مناسب سا آزاد ماحول ملا۔ مگر ریاست کا تخلیق کردہ بیانیہ گھر سے باہر پوری شدت سے موجود تھا۔

اس بیانیہ کے تحت، ہندوستان ہمارا دشمن تھا، ہندو بہت برے، تنگ ذہن اور سازشی لوگ تھے جو اپنے گھر بھی تنگ بناتے تھے، جبکہ مسلمان کشادہ دل تھے اور ان کے گھر بھی کھلے ہوتے تھے (مطالعہء پاکستان)، سکھوں اور ہندوؤں نے تخلیقِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کو چن چن کر کاٹ مارا، جبکہ بٹوارہ کی لکیر کے اِس جانب، مسلمانوں نے اپنی حفاظت میں سکھوں اور ہندوؤں کو اس پار پہنچایا (مطالعہء پاکستان و عام فہم خیال تھا)، پاکستان کو اللہ نے سب کچھ دیا ہوا تھا (میری مٹی میں لعلِ یمن)، پاکستان اسلام کا قلعہ تھا اور مسلم دنیا کا رہنما تھا (اسلامی سربراہی کانفرنس 1974)، پاکستانی افواج دنیا کی بہادر ترین افواج تھیں جس میں ایک مسلمان سپاہی، دس ہندوؤں پر بھاری تھا اور اگر وہ مسلمان سپاہی مجھ جیسا نکما مسلمان نہ ہو، بلکہ محترم جنرل ضیاءالحق غازی شہید جیسا مسلمان ہو تو وہ سو ہندوؤں پر بھاری تھا (اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا)، پاکستانی قوم دنیا کی ذہین و محنتی ترین قوم تھی جس کے مقدر میں مسلم دنیا اور اس خطے کے لیے اک رہنما کردار ادا کرنا تھا (ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں)۔

غربت میں سسکتے، رینگتے، اپنی ہزاروں چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا گلا گھونٹتے گھونٹتے اور شعور کے دروازے پر ٹکریں مارتے مارتے بلوغت کی جانب جانے کی کوئی بہت اچھی یادیں ملکوال یا اپنی ابتدائی زندگی کے ساتھ وابستہ نہیں۔ بالکل بھی نہیں، مگر یہ ریاست کی تخلیق کردہ شخصیت ہی تھی کہ جس کے تحت، جب سنہ 1989 کے کشمیری انتفادہ کا اثر ملکوال بھی پہنچا تو خادم بھی نیلے رنگ کی گھسی ہوئی جینز، پیلے رنگ کی شرٹ پہنے، اپنے ماتھے پر لال رنگ کا رِبن باندھے، کشمیر کی آزادی کے لیے ملکوال میں نعرے مار مار کر اپنا گلا خراب کروا رہا تھا۔

سنہ 1989 سے بھی پہلے، جماعت اسلامی، افغانستان سے ٹاواں ٹاواں مجاہدین ملکوال لے آتی تو سابقہ ریلوے چوک، موجود میلاد چوک، کے چھوٹے سے احاطے میں فارسی اور پشتو میں ان کے خطاب سنتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے، سمجھ اک لفظ کی بھی نہیں آتی تھی۔ پھر جماعت اسلامی، خیر سے چرار شریف کو جلانے والے، سابقہ مجاہد ”میجر مست گل“ جو مبینہ طور پر حالیہ سمگلر بھی ہیں، کو بھی ملکوال لے کر آئی تو ان کے جلوس میں گلا پھاڑ پھاڑ کر ”اس سال کا نعرہ، کرش انڈیا“ لگانے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔

کچھ بڑا ہوا تو اشفاق حسین صاحب، قدرت اللہ شہاب صاحب اور ممتاز مفتی صاحب کے روحانی بابے چمٹ گئے۔ اس سے پہلے حکایت والے، عنایت اللہ مرحوم کے سبز پوش بابے بھی سر پر کافی ناچ چکے تھے۔ ناچ کرتے ہوئے بابوں سے، پاکستان کو بنانے، بچانے اور روحانی طور پر اللہ کے نور اور بہت بڑے راز کو چلانے والے بابوں تک اک دھند تھی جس کے تحت: پاکستان سے بہتر ملک کوئی نہ تھا۔ پاکستانیوں سے بہتر کوئی لوگ نہ تھے۔ پاکستانیت سے بہتر کوئی نظریہ نہ تھا۔ پاکستانی معاشرے سے بہتر اسلامی معاشرہ کُل کائنات میں نہ تھا۔

یہ 1990 کی دہائی کی شروعات تھی اور عاصمہ جہانگیر مرحومہ، آئی اے رحمٰن، فخر زمان اور دیگر خواتین و حضرات کے نام پاکستانی اردو اخبارات میں تسلسل سے آنے لگے، اور ان کی کہی باتیں اور اٹھائے ہوئے سوالات کے تحت، اخباری فتاویٰ کی بھرمار تھی کہ وہ غدار ہیں، گھٹیا ہیں، واہگہ بارڈر پر جا کر چراغ جلاتے ہیں، وہ پاکستان کے خلاف ہیں، وہ پاکستانیوں کے خلاف ہیں، وہ پاکستانی معاشرے کو ہندوانہ و مغربی کرنا چاہتے ہیں، وہ ہماری عورتوں کو فحاشی سکھاتے ہیں، وہ اسلام کے خلاف ہیں، وہ مسلمانوں کے خلاف ہیں۔

اس فتویٰ سازی میں نظریہ پاکستان کے اک خودساختہ لاہوری اخباری گروپ، جو کئی کئی ماہ اپنے کارکنان کو تنخواہیں ادا نہیں کرتا، سب سے آگے تھا۔ پھر اک مناسب حصہ، حال ہی میں اک بیکری کے چینل کو پیارے ہو جانے والے عظیم صحافی صاحب کا تھا۔ استاد بوتل کے نام سے جانے جانے والے اک پاکباز اور روحانی کالم نگار بھی اس دوڑ میں شامل تھے۔ اردو کالم نگاروں کی اک بھرپور فوج تھی، جن کے ذمے اک ایسے نظریہء پاکستان کی ترویج تھی، جو اصل والی قراردادِ پاکستان سے نہ صرف ملتا نہ تھا، بلکہ شدید مخالف تھا۔

سوال اٹھانے والوں کے خلاف مخاصمت، انگریزی اخبارات میں بھی موجود تھی۔ ذرا ہوش سنبھلا تو معلوم پڑا کہ پاکستان کے اک ایٹمی ڈاکٹر صاحب کے لڑ لگ کر لوگوں نے کروڑوں اور اربوں کمائے، اور ایسے کمائے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

کبھی وطنیت تو کبھی مذہبیت کی تقدیس کے پردے کے پیچھے افراد اور گروہوں کی معیشت تھی۔ اصلیت کچھ نہ تھی۔ یا اگر کچھ اصلیت تھی تو وہ آٹے میں نمک سے بھی کم تھی۔
اس چوہا دوڑ میں، میں بھی اک چوہا تھا۔ جو اصل پر نہیں، نقل پر زندہ تھا۔ کیوں نہ ہوتا جب نقل ہی اصل تھی؟

(یہ تحاریر کا اک مختصر سلسلہ ہوگا، جس میں پاکستانی ریاست اور این جی اوز کی اک نہ ختم ہونے والی چپقلش پر کچھ گفتگو کی جائے گی۔ شکریہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).