اگر وزیراعظم کی پریس کانفرنس کچھ یوں ہوتی؟


اگر وزیراعظم کی پریس کانفرنس کچھ یوں ہوتی؟ خلاف توقع سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو نیب نے حراست میں لےلیا ہے۔ اور عدالت نے تحقیقات کو ضروری سمجھتے ہوئے ان کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ بھی دیدیا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے۔ حکومت نے تاحال چیئرمین نیب کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی۔ شہباز شریف کی گرفتاری میں ہمارا ہاتھ نہیں ہے۔ ملک کو ہمیشہ کی طرح بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایسے حالات میں پارلیمنٹ میں طاقتور اپوزیشن کا ہونا انتہائی اہم ہے۔ ہم چاہتے ہیں ہم سے کوئی بھول چوک کوئی غلطی ہو تو اپوزیشن تعمیری تنقید کرے۔

ملک میں جب اہم ترین ضمنی انتخاب منعقد ہونے جارہے ہیں۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف کی اس طرح گرفتاری سے میرے نظریے کو نقصان پہنچا ہے۔ عام تاثر کے حکومت انتقامی کارروائیاں کررہی ہے کو تقویت ملی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہماری فوری ترجیح معیشت کی بحالی ہے انتقامی کارروائیاں نہیں۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ اس گرفتاری میں نہ تو میرا کوئی ہاتھ ہے اور نہ ہی کسی اور ریاستی ادارے کا۔ کوئی سازش ہے نہ ہی کوئی ڈیل۔ ایسا نہ ہمیں انتخابات جتوانے کے لیے کیا گیا ہے نہ ہی مسلم لیگ ن کو ہرانے کے لیے۔ سیاست میں وقت اہم ہوا کرتا ہے۔ مگر شہباز شریف کی گرفتاری کے وقت کا تعین میں نے نہیں کیا۔ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے۔ مجھے توقع ہے کہ چیئرمین نیب نے ایسا کرنے سے قبل ہوم ورک مکمل کرلیا ہوگا۔ ضرور ٹھوس شواہد موجود ہوں گے۔ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟ تحقیقات جاری ہیں۔ جلد ہی نتائج عوام کے سامنے ہوں گے۔ میں چاہتا ہوں شہبازشریف پر لگنے والے الزام بے بنیاد ثابت ہوں۔ تاکہ سیاستدان اور سیات مزید بے آبرو نہ ہو۔ پاکستان زندہ باد۔

سوچتا ہوں اگر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد وزیراعظم عمران خان قوم سے کچھ اس قسم کا خطاب کرتے کو نتیجہ کیا ہوتا؟

خان صاحب نے پریس کانفرنس کی اور حسب معمول شہباز شریف پر لگاگئے تمام تر الزامات دہرا دیے۔ بلکہ ان کی بے بسی اس وقت عیاں ہوئی جب یہ اقرار کیا کہ وہ شہباز شریف کو منڈیلا بنتے دیکھ رہے ہیں۔

صاف ظاہر تھا وہ مخالف کو ملنے والی پذیرائی سے خائف ہیں۔ وزیراعظم کے اس رویے نے نواز شریف کے موقف کو درست ثابت کیا ہے۔ عمران خان حکومت ملنے کے بعد بھی کنٹینر پر ہی موجود ہیں۔ اس تجزیے کو بھی تقویت ملی ہے۔ اگر ماضی کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو رینجرز کا احسن اقبال کو احتساب عدالت کے گیٹ پر روک لینا۔ حسین نواز کی نیب کے تفتیشی کمرے سے تصویر لیک ہوجانا۔ نوازشریف اور مریم نواز کی انتخابات سے قبل گرفتاری، حنیف عباسی کی گرفتاری، ایک طرف سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی جائیداد کی نیلامی کا حکم تو دوسری جاب پرویز مشرف کے لیے فارم ہاوس کی صفائی کروانے، سیکیورٹی فراہم کرنے اور گرفتار نہ کرنے کا حکم اور اب جب ضمنی انتخاب سر پرہیں تو شہباز شریف کی گرفتاری۔ اس سب صورتحال میں مسلم لیگ ن کی جانب سے تاحال کوئی تحریک نہیں چلائی گئی اور حکومت یوٹرن پر یوٹرن لے رہی ہے۔ سی این جی پیٹرول سے بھی مہنگی ہوچکی ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھ چکے ہیں اور جلد ہی ہم آئی ایم ایف کے پاس بھی جانے والے ہیں۔

کیا ہوگا جب شہبازشریف آزاد ہوں گے؟ جب نوازشریف کو جلسوں اور جلوسوں کی اجازت مل چکی ہوگی اور جب مریم نواز پھر سے سرگرم ہوچکی ہوں گی؟

کیا ہوگا جب نیب نوازشریف کو کرپٹ ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے گا؟ کیا ہوگا جب خان صاحب لوٹی گئی دولت بیرون ملک سے نہیں لاسکیں گے؟ جو قوم ٹوتھ برش پرانا ہوجانے پر اس سے شلوار میں کمربند ڈالنے کا کام لینے لگتی ہے کیاہوگا جب اس قوم کو احساس ہوگا کہ اس کے الیکشن چرالیے گئے تھے؟

وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں شہباز شریف پر الزامات لگا کر خود کو نیب کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور یہ کام حکومت مسلسل کرتی چلی آرہی ہے۔ پھر چاہے وہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہو یا سینیٹ کا۔ لہذا اب اگر نیب ناکام ہوا تو رسوا حکومت ہی ہوگی۔ صرف حکومت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).