عمران خان کو آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑا؟


جی جناب یہ تو اب ہم سب جان چکے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کا تیرہواں بیل آوٹ پیکج لینے کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جارہا ہے۔ عمران خان صاحب سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے۔ کہا گیا کہ سعودی عرب اس بار تبدیلی والی حکومت کی بہت بڑے پیمانے پر مالی مدد کرنے جارہا ہے۔ یہ بھی رپورٹس تھی کہ مکہ مدینہ والے عمران خان کی حکومت کے بنک اکاونٹس میں دس بلین ڈالر رکھیں گے۔ اسی حوالے سے سعودی عرب سے ایک معاشی وفد پاکستان بھی آیا تھا۔ یہ وہ دس ارب ڈالرز تھے جو حکومت پاکستان کے اکاونٹس میں جاتے، ان پیسوں کو خرچ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جاتے۔ لیکن سعودی عرب کے شاہ نے مدد نہ کی۔

چین کے حوالے سے کہا گیا کہ چین پاکستان کی نئی نویلی حکومت کو چار ارب ڈالرز دے گا وہ پیسے بھی پاکستان کو نہیں مل سکے۔ مکہ مدینہ والوں کے ساتھ ساتھ دوست ملک نے بھی دھوکا دے دیا۔ اوپر سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی بیٹھ گئی۔ بھینسوں کو بیچ کر بھی دیکھ لیا۔ گورنر ہاوسز اور وزیر اعظم ہاوسز کو واگزار کروالیا گیا۔ تیل اور بجلی کی قیمت بڑھا کر بھی دیکھ لی۔ معیشت تھی کہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ عوامی دباؤ بھی بڑھ رہا تھا۔ اب اس صورتحال میں آئی ایم ایف کے پاس جانا تو بنتا تھا۔ سنا ہے ایک روز پہلے پاکستان کے تمام چوٹی کے ماہرین معیشت کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انہیں مشورہ دیا گیا کہ جناب وزیر اعظم صاحب آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔

ماہرین معیشت کے مطابق اس سال دس سے بارہ ارب ڈالر کا فنانشل گیپ ہے جسے پر کرنا اور معیشت کو بیلنس کرنا بہت ضروری ہے۔ اب اس گیپ کو پر کرنے کے لئے آئی ایم ایف بہت بڑا بیل آوٹ پیکج دے گا۔ کہا جارہا ہے کہ شاید سات بلین ڈالرز اس سال آئی ایم ایف سے مل جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایشین ڈیویلپمنٹ بنک بھی پاکستان کی کچھ فنانسنگ کرے گا۔ ساتھ ساتھ یہ حکومت کشکول لے کر ورلڈ بنک کے پاس جائے گی، ورلڈ بنک والے بھی اس کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈال دیں گے۔ اسی طرح کچھ مدد شاید دوست ممالک سے بھی مل جائے۔

سنا ہے عمران خان صاحب آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لئے تیار نہ تھے۔ انہیں بہت ترغیب دی گئی کہ سائیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ اورسیز پاکستانی جن پر اپنے عمران صاحب کو بڑی امیدیں تھی کہ وہ رقم بھیجیں گے، انہیں نے بھی مایوس کیا۔ لوٹی ہوئی دولت بھی ابھی تک پاکستانی بنکوں میں نہیں آسکی۔ نہ نہ کرتے آخر کار اپنے دبنگ سیاسی کھلاڑی عمران خان نے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ بس عوام سے گزارش ہے کہ وہ مہنگائی، بے روزگاری کے لئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ کیونکہ اب گیس اور تیل کی قیمتیں مزید بڑھیں گی اور مہنگائی کا ایک سونامی برپا ہوگا۔ روپیہ مزید گرے گا۔ تمام امپورٹڈ اشیا مہنگی ہوں گی۔ فوڈ آئٹمز کی قیمتیں بھی چڑھیں گی۔ اس کے علاوہ معاشی ماہرین کے مطابق ڈالرز 145 سے 150 روپے تک جائے گا۔

یہ جو 12 ارب ڈالرز کا انجیکشن پاکستانی معیشت کو لگایا جائے گا اس سے کچھ ماہ بعد مصنوعی طور پر معیشت میں stability آجائے گی۔ عارضی طور پر روپیہ مستحکم ہوجائے گا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا جو حال ہے وہ تو سب کے سامنے ہے۔ لیکن اب جو عوام کا حال ہوگا وہ بھی سب کے سامنے ہوگا۔ عوام کو جھٹکوں پر جھٹکے لگیں گے۔ عمران خان کو شاید اب سمجھ آرہی ہے کہ شوکت خاتم اسپتال تو خیرات سے چلائی جاسکتی ہے۔ نکمی ٹیم کے ساتھ شاید کرکٹ ورلڈ کپ بھی جیتا جاسکتا ہے۔ لیکن ملکوں کی معیشت جذبات یا خیرات سے نہیں چلتی۔

پاکستان تیس سالوں میں آئی ایم ایف سے اب تک بارہ بیل آوٹ پیکج لے چکا ہے اور اب یہ تیرہواں بیل آوٹ پیکج ہوگا۔ جبکہ بنگلہ دیش نے اب تک تین، نیپال نے تین، سری لنکا نے دو اور بھارت نے صرف ایک بیل آوٹ پیکج لیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی معیشت کی صورتحال کیا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کے گرداب میں اس لئے پھنسا ہواکہ جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے کسی حکومت نے ٹھوس معاشی اسٹریٹیجی نہیں بنائی۔ جبکہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت وغیرہ معاشی اسٹریٹیجی کے ساتھ چل رہے تھے اس لئے یہ ممالک آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل چکے۔ جو ملک قرضے کو آمدنی سمجھتا ہے اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ جو ملک افغان وار کے ڈالروں کی بارش کو ترقی سمجھے یا نائن الیون کے بعد ڈالروں کی بارش پر اترائے، اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ جیو پولیٹیکل اسٹریٹیجی سے معیشت مستحکم نہیں ہوتی۔

پاکستان آئی ایم ایف کو 6 سے 7 ارب ڈالرز قرضے کی درخواست کرے گا، وزیر خزانہ اسد عمر دورہ انڈونیشیا میں آئی ایم ایف سے باضابطہ درخواست کریں گے۔ پاکستان کی درخواست کے بعد آئی ایم ایف وفد 10 روز میں پاکستان کا دورہ کرے گا اور آئی ایم ایف وفد اپنی شرائط لے کر پاکستان آئے گا، پاکستان کی آئی ایم ایف شرائط پر رضا مندی کے بعد پروگرام کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اس سارے عمل کے لیے 4 سے 6 ہفتوں کا وقت درکار ہوگا اور آئی ایم ایف پروگرام کا دورانیہ 3 سال ہو گا۔ ذرائع وزارت خزانہ کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف سرکاری اداروں میں خسارہ کم کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ گردشی قرضوں میں کمی لانے کا مطالبہ کرے گا۔ معیشت دانوں کے مطابق آئی ایم ایف چاہتا ہے پاکستان کے گردشی قرضے کم ہوں، ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے اور سرکاری اداروں میں نقصانات میں کمی لائی جائے۔ معیشت دان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آئی آیم ایف پاکستان کے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کا مطالبہ کرے گا اورآئی ایم ایف مصنوعات سازی بڑھا کر برآمدات میں اضافہ چاہتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر ستمبر کے آخر میں نو ارب ڈالر سے زیادہ تھے جس میں 62 کروڑ ڈالر کمی آئی ہے اور اکتوبر میں زر مبادلہ کے ذخائر صرف 8.4 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ زر مبادلہ کے یہ ذخائر بس اتنے ہی ہیں کہ سال کے آخر میں جو ادائیگیاں کرنی ہیں وہ پاکستان کر سکے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے کے اندر جو کمی واقع ہوئی ہے وہ گزشتہ کئی برسوں میں سب سے زیادہ کمی ہے۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست مندی کے رجحان کی وجوہات میں ماہرین پاکستان کا آیی ایم ایف کی طرف قرضے کے لیے جانا اور حکومت کی پالیسی کا واضح نہ ہونا قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس پیر کے روز 1100 پوائنٹس گرا تھا جو ایک بڑی گراوٹ سمجھی جاتی ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان کو سعودی عرب یا چین سے اگر تھوڑی بہت مالی امداد مل بھی جاتی تو بھی پاکستان کا آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر تھا۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوتی ہیں۔ ان شرائط میں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں اور شرح سود میں اضافہ اور ڈالر کی شرح تبادلہ کو آزاد مارکیٹ کے مطابق اپنی قدر کے تعین کی آزادی بھی شامل ہے۔ ان اقدامات کا مقصد حکومت کے مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق آئی ایم ایف کے پاس جانے کے نتیجے میں ڈالر مہنگا ہو سکتا ہے۔ اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر 125 سے 127 روپے کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ آئندہ دو تین مہینوں میں اس کی قیمت 140 سے 150 روپے کے درمیان پہنچ سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کی رائے کے مطابق ملک میں مہنگائی کا طوفان آ سکتا ہے کیونکہ ملکی توانائی کی ضروریات کا انحصار زیادہ تر بیرون ملک سے ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے تیل، مائع گیس اور کوئلہ مہنگا ہو جائے گا۔ پاکستان کے تھرمل پاور پلانٹس درآمدی کوئلے پر چلتے ہیں کیونکہ ملکی کوئلہ معیاری نہیں ہے۔ توانائی کی مہنگائی کارخانوں اور کھیتوں کھلیانوں سے لے کر عام آدمی تک، ہر ایک کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔ توانائی کی قیمت بڑھنے سے مصنوعات کی لاگت بڑھ جائے گی جس سے بین الاقوامی منڈی میں مشکل مقابلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپے اقتصادی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ عارضی طور پر تو یہ درست اقدام ہے کیونکہ ان حالات سے نکلنے کا آخری چارہ کار یہی تھا لیکن اگر حکومت نے ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی تو چند برس کے بعد اسے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم اے کے پاس جانے سے متعلق عمران انتظامیہ کے فیصلے کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ قرضوں پر کڑی نکتہ چینی کرنے والے اور قرضوں سے پاک ملک بنانے کے انتخابی نعروں پر ووٹ لینے والے اب اپنے ووٹرز کا کس طرح سامنا کریں گے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی سے یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا 10 وان پروگرام ہے۔ جب کہ معاشی ماہرین کہتے ہیں پاکستان 12 سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔ اور اسے ہر چند سال بعد عالمی مالیاتی ادارے کے پاس پھر سے جانے کی ضرورت اس لیے پڑ جاتی ہے کیونکہ عالمی ادارہ معیشت کی بہتری کے لیے جو تجاویز پیش کرتا ہے، حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).