مہنگائی کا سونامی اور آئی ایم ایف کا رخ ۔۔۔۔


غضب کیا جو تیرے دعوے پر اعتبار کیا، جی ہاں غضب ہی تو ہے، کہ ووٹرز یہ سن کر کپتان عمران خان کے پیچھے چل پڑے کہ وہ بھیک کا کشکول ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توڑ دیں گے، وہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکل باہر کریں گے، وہ ملک کو ایسا ملک بنا دیں گے جہاں لوگ نوکری کے لئے بیرون ملک نہیں جائیں گے، بلکہ دوسرے ملکوں کے لوگ یہاں ملازمت کے لئے آنا شروع ہو جائیں گے۔ خان صاحب نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے سے سے قرض نہیں لیں گے، اگر ایسا انہیں کرنا پڑا تو وہ خودکشی کر لیں گے۔ نہ کشکول ٹوٹا، نہ قرض کا حصول ختم ہوا، نہ لوگ ملازمت کے لئے لوگ بیرون ملک جانا بند ہوئے اور نہ لوگ بیرون ملک سے یہاں ملازمت کے لئے آنا شروع ہوئے۔

پی ٹی آء کی پہلی حکومت جو نیا پاکستان بنانے آئی تھی اس کے پہلے ہی ستر دنوں میں میں کیا سے کیا ہو گیا۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، پھر ایل پی جی، سی این جی جو عام آدمی گھروں میں استعمال کرتا ہے اور گاڑی رکشہ ٹیکسی میں گیس ڈلوا کر اپنا اور بچوں کے لیے روٹی کماتا ہے، اس کے نرخوں میں ہوش اڑا دینے والے اضافے نے تو غریب آدمی کو ہلا کر رکھ دیا۔ ۔ اسٹاک مارکیٹ میں اس ہفتے کے پہلے ہی دن سرمایہ کاروں کے سو ارب روپے ڈوب گئے، روپے کی قدر میں روز کمی اور ڈالر ایک سو ارہتیس روپے کا اور سونا باسٹھ ہزار تولہ پر آگیا۔ کیوں کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ آخر حکومت چلانی کیسے ہے، حکومت کا کاروبار چلانے کے لئے پیسہ کہاں سے لینا ہے۔ وہ مراد سعید کہا ں گیا جس نے دعوی کیا تھا کہ، عمران خان وزیر اعظم بنتے ہی پہلے دن بیرون ملک سے لوٹا ہوا دو سو ارب ڈالر واپس لا کر منہ پر ماریں گے اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔

اتوار کے دن عمران خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ابھی تک آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ پھر جوں ہی صبح ہوئی اور کاروبار زندگی شروع ہوا تو ہر طرف طوفان نے لوگوں کو پریشان کر دیا۔ ڈالر کوئی بچنے کو تیار نہیں، خریدار مارے مارے پھر رہے ہیں، کیوں کہ ان کی اسی میں عافیت ہے کہ بچت غیر ملکی کرنسی میں رکھ لیں یا سونا خرید لیں، پر سونا اس قدر مہنگا کہ وہ بھی قوت خرید سے باہر۔ یہاں تک رکشہ چلانے والے کو یہ تک کہتے سنا گیا کہ پرانا پاکستان میں سی این جی ستر روپے میں ملتی تھی، نیا پاکستان میں یہ پیٹرول سے زیادہ مہنگی، اور ایک سو پچاس روپے پر ریٹ پر پہنچ گیا۔

تب جا کر کچھ ہوش کے ناخن لئے گئے اور فیصلہ وہی ہوا کہ جانا آئی ایم ایف کے پاس پڑا، وہی آئی ایم ایف جس کے پاس جانا خان صاحب کے نزدیک خود کشی کرنا تھا۔ پر نہ تو خود کشی ہوئی، نہ کشکول ٹوٹا نہ ملک سدھرا۔

ملک کے تمام معیشت دان پہلے دن سے یہ کہ رہے تھے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں۔ انہی سے قرض لے کر ملک چلانہ ہوگا۔ پر نیا پاکستان کے کرتا دھرتا اکڑے رہے کہ نہیں ہم اس کے بغیر ملک کو چلا کر دکھاییں گے۔

یہ بات درست ہیں کہ غیر ملکی قرضہ، ستر اسی ارب ڈالر پر پہنچ چکا ہے، اس میں نون لیگی کی حکومت کا بڑا کردار ہے۔ یہ بات درست ہیں کہ سرکلر ڈیٹ یعنی گردشی قرضے ایک ہزار ایک سو پندرہ ارب تک جا پہنچا ہے، جو ملکی کی تاریخ کا سب سے بڑا قرض ہے جو پچھلی حکومت کا دیا ہوا تحفہ ہے، سرکاری ادارے برے حال میں ہیں اور ان کی بحالی کے لئے اربوں روپے درکار ہوں گے۔ سرکاری اداروں کے ریٹائر ملازمین اپنے واجبات کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بیروزگاری کا طوفان ہے، پریشانیوں کی سونامی سر پر ہے، اندروں بیرونی قرضوں کی بھرمار ہے۔
اگر آپ نے قرض کے لئے آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا تھا تو انتظار کیوں کیا، اور آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا تھا تو اس سے پہلے قیمتوں میں اضافہ کیوں ہونے دیا گیا، روپے کی قدر کیوں کم کی گئی۔

اب جب آئی ایم ایف سے قرضہ ملے گا، تو نئی شرائط پر ملے گا اور وہ شرائط جب آپ پوری کریں گے تو آپ کو اپنے منشور سے ہٹنا پڑے گا، اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے دو ہزار تیرہ میں جب نوں لیگ کی حکومت نے آئی ایف سے قرض لیا تو کہا تھا کہ اس پروگرام سے بارہ لاکھ ملازمتوں سے ہاتھ دھونا ہوگا، تو کیا اب نوکریاں نہیں کم ہوں گی؟ اور کیا عمران خان نے نوجوانوں سے جو ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کا وعدہ کر رکھا ہے اس پر سمجھوتہ کر کے انحراف کریں گے؟

آج ہی دنیا کے موقر ترین جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ سی پیک اور چین کے دنیا بھر میں قرضوں کی فراہمی سے بڑی بڑی شاہراہوں اور راہداریوں کے منصوبوں میں پاکستان ایک اورر ملک ہے جو قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے۔ اور یہ جال ایسا ہے جو موجودہ حکومت کو اپنی راہ اور اپنے وعدوں کے تکمیل سے ہٹا دیگا۔ ان میں سب سے اہم ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی ہے، یہ وعدہ پورا ہو تا نظر نہیں آتا، اگر ایسا ہوا تو نوجوان سب سے زیادہ مایوس ہوں گے، اور اگر نوجوان مایوس ہو گئے تو ملک میں تحریک انصاف کا نام لینے والا نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).