امیر علی ٹھگ، تاریخ اور افسانہ کے سنگم پر


اس ناول سے ملکہ وکٹوریہ کی دلچسپی محض اتفاقی یا ناول کے واضح ’’وکٹوریائی‘‘ عناصر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس مقبولیت کا پیش خیمہ تھی جو شائع ہوتے ہی اس ناول کو حاصل ہوگئی۔ اس ناول کے بعد ٹیلر نے تاریخی ناولوں کا ایک سلسلہ قلم بند کیا جس کی بدولت اسے ’’ہندوستان کا والٹراسکاٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ یہ سلسلہ ’’ٹیپوسلطان‘‘ (1840ء) سے شروع ہو کر چاند بی بی سے متعلق ناول “A Noble Queen” (1878ء) پر ختم ہوا۔ اس میں سے ناول ’’سیتا‘‘ جو پہلی بار 1872ء میں شائع ہوا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ بھوپال سنگھ نے اینگلو انڈین ادب کے جائزے میں لکھا ہے کہ یہ امر ہمیشہ متنازع رہے گا کہ میڈوز ٹیلر کی کتابوں میں سے حقیقت پسندانہ ’’ٹھگ کے اعترافات‘‘ بہتر ہے یا اس کے آدرش وادی تاریخی رومان۔ میرا خیال ہے کہ وقت نے اس تنازع کو حل کر دیا ہے اور ’’ٹھگ کے اعترافات‘‘ جو ٹیلر کی باقی سب کتابوں سے مختلف ہے، اس کے نام کو آج بھی توجہ کا سبب بنائے ہوئے ہے۔

اس کتاب کی ادبی خاصیت کی نشان دہی مشکل کام نہیں۔ بھوپال سنگھ کے بقول ’’یہ کتاب اس کے باقی ماندہ کام سے مختلف ہے، صرف موضوع کے اعتبار ہی سے نہیں بلکہ طریقہ بیان کے حوالے سے بھی۔ اس کا فن اس کی بظاہر سادگی کا نتیجہ ہے۔ جو واقعات پیش آئے، یہ ان کا سیدھا سادا بیان ہے جو ٹھگی میں شامل ایک آدمی نے خود بیان کیے ہیں، اور قوت تخیل اور مشاہدے کی مشاقانہ قوت نے اس میں جان ڈال دی ہے۔‘‘ ناول کا مرکزی کردار امیر علی دراصل ایک ٹھگ تھا جس کے اعترافات میڈوز ٹیلر نے سنے اور ان کے بارے میں لکھا کہ ’’یہ اعترافات انسانیت کی متفرق و مختلف النوع دستاویزات کا ایک عجیب اور خوفناک صفحہ‘‘ ہے۔ میڈوز ٹیلر کے اپنے یہ الفاظ اس ناول کی بہترین تعریف ہیں۔

آدمی کا جو روپ میڈوز ٹیلر نے دیکھا اور دکھایا ہے وہی اس کتاب کی اصل دلچسپی کا سبب ہے۔ ہم ٹھگوں کی سفاکی پر حیران ہوتے ہیں اور ان کی ہوشیاری و چالاکی پر تعجب کرتے ہیں۔ لیکن اب کہیں کہیں احساس ہونے لگتا ہے کہ دنیا اتنی سیاہ و سفید نہیں ہوسکتی۔ جرائم کے بارے میں میڈوز ٹیلر کے خیالات اب ازکار رفتہ معلوم ہوتے ہیں اور ٹھگی جیسے سماجی مظہر کے بارے میں اس کی رائے برطانوی راج کے خاتمے کے بعد اب ہمارے لیے قابل قبول نہیں رہی۔

ٹھگی اور دوسرے پر تشدد جرائم کا سلسلہ انسان کی روح میں مُضمر تشدّد سے جوڑا جاسکتا ہے۔ ماہر نفسیات ایرخ فرام نے سوال اٹھایا تھا کہ انسان ہی وہ واحد مخلوق کیوں ہے جو اپنی نوع کی دوسری مخلوق کو بلاوجہ موت کے گھاٹ اتار نے اور اذیت پہنچانے کا کام کرتی رہتی ہے۔ اس سوال کا جواب ’’قاموس القتل‘‘ (Encyclopaedia of Murder) کے مصنف کولن ولسن نے ’’انسانیت کی مجرمانہ تاریخ‘‘ میں یوں دیا ہے کہ اس کا سبب نہ تو موروثی عناصر ہیں نہ کسی قسم کی فرضی خواہشِ مرگ، بلکہ یہ خود ادعائی کی انسانی ضرورت اور اولیت (Primacy) حاصل کرنے کی لگن ہیں۔ یہ تشدد کی اس جبلت کو تخلیقی قوت کے سکے کا دوسرا رخ سمجھتا ہے۔ امیر علی کا کردار بھی اپنی شکست کی آواز ہے، اپنے امکانات سے بھٹک جانے کا اداس مرقع۔

امیر علی ایک ادھورا اور بھٹکا ہوا کردار ہی نہیں، مصنف کی نظریاتی و سماجی افتاد کا گرفتار بھی ہے۔ ٹھگی اور اس کی روح فرسا داستانوں کے بیان سے مصنف انگلستان کے معاشرے کی ایک اجتماعی ضرورت بھی پوری کررہا ہے، جس کا احساس آج ہمیں زیادہ واضح طور پر ہونا چاہیے۔

’’ٹھگ کے اعترافات‘‘ پڑھتے ہوئے مجھے آج ایک اور کتاب یاد آتی ہے جو بظاہر اس سے مختلف ہے، اس کے تقریباً صدی بھر بعد اور ہندوستان کے ایک اور ہی خطے کے بارے میں لکھی گئی۔ میری مراد ایچ ٹی لیمبرک کی کتاب ’’دہشت گرد‘‘ (The Terrorist) سے ہے۔ جو سندھ میں حروں کی بغاوت کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔ یہ بھی تاریخ پر مبنی ہونے کے باوجود ایک ناول ہے۔۔۔۔ یاد کیجیے بھوپال سنگھ کا فقرہ کہ ناول سے کون جھگڑا کرسکتا ہے۔۔۔ اور اصل کرداروں کے اعترافات پر مبنی۔ مماثلت یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اپنے موضوع کو دیکھنے کا طریقہ بھی دونوں کتابوں میں خاصا ملتا جلتا ہے۔ امریکی مورخ تھامس مٹکاف (Thomas Metcalf) نے اپنی دلچسپ کتاب “Ideologies of the Raj” میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ ٹھگی کی ہولناکیوں کا بیان برطانوی راج کے لیے بہت افادیت رکھتا تھا۔ ٹھگی کے بیان سے اس تصوّر کو مضبوط کیا جاتا تھا کہ ہندوستانی ناقابل اعتبار اور دغاباز ہیں۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ٹھگی کوئی منظم اور باقاعدہ و باضابطہ طریقہ نہیں تھا اور نہ ٹھگوں کو دوسرے چور اچکوں اور ڈاکو لٹیروں سے ممتاز کیا جا سکتا تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3