امیر علی ٹھگ، تاریخ اور افسانہ کے سنگم پر


ٹھگی کا تصور یوں مقبول ہوا کہ اس کے ذریعے سے ہندوستان میں آنے والے انگریز اپنی گھبراہٹ، خوف اور پریشانی کو ایک باقاعدہ شکل دے سکتے تھے۔ ان کو ہندوستان میں قدم قدم پر فریب اور دھوکا نظر آتا تھا۔ ہندوستان میں وہ سب سے زیادہ اس بات سے خائف تھے کہ اپنے محکوموں کو پوری طرح جاننے اور ان پر مکمل قابو رکھنے سے قاصر تھے۔ ٹھگی ان کے لیے اس خوف کی علامت بن گئی۔ اپنی پریشانیوں کو ٹھگوں سے منسوب کرکے اور پھر اس پورے گروہ کا قلع قمع کرکے وہ دراصل اس قوّت کو کسی حد تک پابند کرنا چاہتے تھے اور یوں اپنے آپ کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ وہ بلاشرکت غیرے ہندوستان کی تقدیر کے مالک ہیں۔ سلیمن نے ٹھگوں کا بظاہر خاتمہ کردیا لیکن انگلستان اور ہندوستان میں ٹھگوں سے ایسی دلچسپی پیدا کردی کہ ٹھگی کا لفظ زبان میں داخل ہوگیا۔ Thug اب ہندوستان سے مخصوص نہیں، بلکہ انگریزی لغت کے مطابق کوئی انگریز بھی ایسا ہوسکتا ہے۔

انگریزی کی طرح اس لفظ اور اس کے پیچھے چھپےتصوّر نے اردو میں ایک طویل سفر طے کیا۔ اس دوران ’’اقبال جرم‘‘ اور اعترافات‘‘، ’’سوانح‘‘ اور ’’تاریخی کارنامے‘‘ بن گئے۔ ایک طرف وہ تاریخ کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان کا سلسلہ داستان سے جُڑتا ہوا نظر آتا ہے جہاں مقبول عام تصور میں ٹھگ، داستان امیر حمزہ کے عیاروں کے مماثل معلوم ہوتے ہیں، یعنی ایسے چالاک اور تیز طراز کردار جو روپ بہروپ بدل کر فوجی حکمت عملی اور جنگی ہارجیت کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں۔ ان کرداروں کی یہ صورتیں ہندوستانی ناظرین کی نفسیاتی ضرورت رہی ہوں گی۔ کیا عیار اور کیا ٹھگ، یہ Subversion کی صورتیں ہیں، جن کو ہندوستان پر برطانوی راج کی مضبوط ہوتی گرفت کے مقابلے میں اپنے سیاسی اور ثقافتی سورمائوں کو فتح مند دیکھنے کی خواہش سے پیدا ہوئی ہوں گی۔ خدا کی زمین پر آوارہ، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر جرم و سزا کا تعین خود کرنے والا اور ریاستی انتظامیہ کے لیے ایک چھلاوہ ۔۔۔۔ ٹھگ کا کردار اب ایک لیجنڈ کی سی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اسی طرح اس لیجنڈ کی نظریاتی اور سیاسی تشریح آج بھی برمحل ہے، جب کہ پاکستان اور ہندوستان کے متعدد علاقوں میں ڈاکو ایک باقاعدہ سیاسی اور سماجی مظہر کے طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں پھولن دیوی جرائم کی تاریخ سے نکل کر سیاست اور فلم کر کردار بن جاتی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس موضوع پر ڈاکٹر مبارک علی نے لکھا بھی ہے اور ان کا مقالہ پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ کشمکش شاید وہی ہے، نام اور کردار بدل گئے ہیں۔ امیر علی ٹھگ آج بھی ہماری رسوائی کی آفاقی تاریخ کا زندہ استعارہ ہے۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امیر علی کے اعترافات آج ہمارے لیے محض ایک دلچسپ اور سنسنی خیز ناول ہی نہیں، ایسا سیاسی و سماجی حوالہ بھی ہے جو بار بار سامنے آتا ہے۔ ادھر کئی برس سے اس ناول کا ترجمہ اردو میں آسانی سے دستیاب نہیں رہا، ورنہ اپنی اشاعت کے تھوڑے ہی عرصے بعد یہ ناول اردو کے قارئین کے لیے اجنبی نہیں رہا تھا۔ میڈوز ٹیلر کے کئی ایک ناول اردو میں ترجمہ کرکے شائع ہوئے بلکہ سروالٹر اسکاٹ کے بھی چند ایک ناول جو اردو میں ترجمہ ہوئے، ان میں اس کا ناول The Surgeons Daughter شامل ہے، جو اسکاٹ کے فن کی کوئی کامیاب مثال قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ہندوستانی پس منظر کی وجہ سے اینگلوانڈین افسانوی ادب کے لیے پروٹو ٹائپ بن گیا۔ (بھوپال سنگھ کے بقول It is no better than a Cheap Melodrema Rambling and III – Constructed. اور یوں یہ عناصر ناول کے اس پورے دور کے خمیر میں شامل ہوگئے۔ بلکہ اسی راہ سے اردو ناول کے آغاز میں بھی در آئے۔) ان جرائم نے اردو ناول کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کو ہم اب ان ناولوں کے ساتھ ساتھ بھول گئے ہیں۔ حالاں کہ ان ناولوں کے بعض ساختیے (Constructs) اور مقام، واقعات، کردار، جدیداساطیر کی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔ یقیناً اسی وجہ سے امیر علی ٹھگ کی یہ کہانی اردو میں کئی بار ترجمہ ہوئی ہے۔ غالباً پہلا ترجمہ پنڈت پرشوتم لال کا ہے جو 1893ء میں شائع ہوا۔ پرشوتم لال کے قلم سے میڈوز ٹیلر کے ناول ’’سیتا‘‘ کا ترجمہ بھی شائع ہوا۔ سوانح عمری امیر علی ٹھگ کے نام سے محب حسین کا ترجمہ حیدر آباد دکن سے ہوا۔ اس پر 1305ھ تاریخ اشاعت درج ہے۔ اس ترجمےمیں اصل سے وفاداری برتی گئی ہے اور ترجمے میں اصل فقروں، جملوں کو بڑی حد تک برقرار رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی تاب ’’تاریخ، ٹھگ اور ڈاکو‘‘ میں حمید الدین مارہروی کے ترجمے کا اقتباس شامل کیا ہے جو رواں نثر کا اچھا نمونہ ہے:

’’1837ء میں جب کہ میں ایلچ پور، برار میں اپنی رجمنٹ میں تھا، تو میں بخار کی وجہ سے نہ صرف کمزور ہوگیا تھا بلکہ مایوسی کا بھی شکار تھا۔ اس موقع پر میں نے ’’اعترافات‘‘ لکھی تاکہ میرا وقت گزر سکے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ میں ٹھگوں کے مقدموں کی تیاری میں کچھ عرصہ کے لیے مصروف رہا تھا۔ اس دوران میں کئی سو ٹھگوں نے قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے واقعات مجھے سنائے تھے۔ اس لیے میرے پاس ان کے بارے میں بڑا مواد تھا جو میں نے نوٹس کی شکل میں لیا تھا۔‘‘

اس ناول کا خاص کردار امیر علی ہے، جس کی میڈوز نے خود تفتیش کی تھی اور جس نے اپنی وارداتوں کا تفصیل سے اعتراف کیا تھا۔ تراجم کے اس سلسلے میں سے آخری ترجمہ جو میرے علم میں ہے، وہ حسن عابد جعفری کا ترجمہ ’’امیر علی ٹھگ کے تاریخی کارنامے‘‘ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3