وہ تیرہواں بچہ راہنما بنے گا یا نائب قاصد؟


حسب معمول ڈھلتی شام کے وقت عزیزم ثاقب جاوید راجہ کے ساتھ مقامی ریستوران میں چائے نوشی کے مابین گپ شپ جاری تھی کہ میری نظر ہمارے ٹیبل کے پاس ایک قدرے بڑے ٹیبل پر پڑی۔ 15 سال کی عمر کے نظر آنے والے کچھ بچے شاید ریسٹورنٹ پر چائے پینے آئے تھے تعداد میں 13 تھے سب کسی ایک ہی تعلیمی ادارہ میں پڑھنے والے کلاس فیلوز لگتے تھے کسی نے تھری پیس ڈریس زیب تن کر رکھا تھا تو کسی نے قمیض شلوار اور واسکوٹ پہن رکھی تھی۔

میں نے ثاقب سے کہا ان بچوں کے چہرے اور حلیے سے اندازہ لگاؤ یہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے، ایک بچہ چہرے اور انداز بیاں سے بیوروکریٹ نظر آتا تھا کالے سوٹ میں سفید شرٹ اور اس پر سرخ رنگ کی ٹائی گفتگو مدبرانہ انداز اور چہرے کے تاثرات سپاٹ مجھے وہ کمشنر نظر آ رہا تھا، بیوروکریٹ جیسے نخرے اور سب کی توجہ حاصل کرنے کی تگ و دو۔ شاید تھا بھی کسی بیوروکریٹ کی اولاد۔ اردو اور انگریزی کا حسین امتزاج لئے وہ بچہ جلدی بڑا ہونے کے لئے تیار نظر آ رہا تھا۔

ایک اور بچہ قد میں لمبا حلیے سے پولیس آفیسر جیسا نظر آرہا تھا۔ سب کو مشکوک نظروں سے دیکھتا اپنی بات زبردستی منواتا وہ بچہ بھی ناز نخرے س کسی بڑے گھر کا ہی لگتا تھا۔ایک واسکٹ پہنے سیاسی رہنماء جیسا بھی تھا۔ لمبی گفتگو اور ہر موضوع پر اپنا نقطہ نظر سامنے رکھ کر اس کو ٹھیک ثابت کرتے ہوئے وہ سب کو قائل بھی کر رہا تھا اور میں ان کے ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھا مسکرا رہا تھا کہ اس کا نقطہ نظر مفروضے پر قائم ہے لیکن مفروضے پر سب کو قائل بھی کر رہا ہے۔

آنکھوں پر موٹی عینک والا چشمہ ارد گرد کے ماحول پر بیٹھے بیٹھت طائرانہ نظر اور فلسفیانہ گفتگو یہ بچہ پروفیسر ہی تھا۔ کسی سرکاری کالج کا لیکچرار یا پھر کسی سرکاری سکول کا سینئر ٹیچر۔ موضوع پر توجہ مرکوز اور اسی پر طویل گفتگو کرتا وہ چہرے سے کچھ پراسرار لگتا تھا مگر گفتگو میں طوالت اور بیٹھنے کا انداز بالکل پروفیسرز جیسا۔

اسی طرح ہم ایک ایک بچے کا حلیہ دیکھتے اور اس کا مستقبل دیکھنے کا اندازہ لگاتے کچھ بالوں کی کٹنگ اور بولنے کے انداز سے ایسے دکھتے تھے جیسے وہ بڑے ہونے کی بجائے برطانوی ہونے کی دوڑ میں شامل ہیں، میرپور کے ستر فیصد بچوں کی طرح آنکھوں میں کسی منگیتر کے خواب سجائے برٹش ہیئر کٹنگ ڈیزائن سے بھرپور داڑھی اور گفتگو میں Dooran Windowan Yeah جیسے الفاظ کا بکثرت استعمال اور جیزی بی جیسا لباس۔ وہ بچے بس چند سال میں بریڈفورڈ، برمنگھم، بلیک برن، مانچسٹر میں ٹیک وے پر کھڑے نظر آ رہے تھے۔

کچھ تیز ترار چالاک اور خوش گفتار نظر آنے والوں کے بارے میں میری رائے تھی کہ یہ رینٹ اے کار کا شوروم رکھیں گے کیونکہ ہمارے ایسے کلاس فیلوز آج کل رینٹ اے کار کا کاروبار ہی کرتے ہیں۔ ان سب میں ایک تیرہواں بچہ بھی تھا سب میں بیٹھا باتیں سنتا سب کے ہنسنے پر ہنستا اور کسی بات پر مختصر سا جواب دے کر باقیوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا۔ وہ تیرہواں بچہ شکل صورت اور وضع قطع سے کسی غریب خاندان کا نظر آتا تھا۔ باقیوں سے بالکل مختلف نظر آنے والے اس بچے پر میری نظر جیسے رک گئی تھی۔

میں اسے دیکھنے لگا اور اس کے جذبات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا وہ بچہ ان سب میں جیسے تنہا بیٹھا تھا۔ سب سے الگ تھلگ سب سے جدا جیسے احساس کمتری کا شکار ہو یا شاید باقی سب کو دیکھ کر کسی گہری سوچ میں مبتلا ہو۔ اس کے چہرے پر حسد یا ندامت جیسی کوئی پرچھائی نہ تھی لیکن مجھے اس کے چہرے پر گہری پراسرار خاموشی نظر آ رہی تھی جیسے وہ بچہ اس میز پر بیٹھے 13 بچوں میں موجود طویل مسافت کا خاتمہ چاہتا ہو، جیسے وہ ایک تفریق ختم کرنا چاہتا ہو، شاید وہ بہت آگے نکل جانے کی لگن اور منزل تک پہنچنے کا جذبہ مضبوط کر رہا ہو۔ اس کے چہرے پر ارادوں کی پختگی کا تاثر تھا اس کی گفتگو میں بلا کی طمانت تھی مگر آنکھیں اس کی مسکراہٹ کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔

میں نے غور سے دیکھ کر ثاقب سے کہا
یہ بچہ اگر تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس کی مجبوریوں نے بیڑیوں کی شکل اختیار نہ کی تو یہ بچہ باقی بارہ کے مقابلے بہت آگے جائے گا اور معاشرے میں تبدیلی کے لئے بہت کام کرے گا لیکن اگر مجبوریوں نے بیڑیاں ڈال دیں تو شاید کسی سرکاری دفتر کے دروازے پر بیٹھا ”نائب قاصد“ بن جائے گا۔

کاش ہمارے حکمران تیرہویں تنہا بچے کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنائیں اور اس کی مجبوریوں کو بیڑیاں بننے سے پہلے ختم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ ایک بچہ نہیں تھا وہ اس وطن کے 98 فیصد لوگوں کا معصوم سا چہرہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).