ڈالر کو چڑھانا حکومت کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے


بعض لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ روپے کی قیمت میں یکلخت اتنی زیادہ کمی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت معاشی فرنٹ پر فیل ہو گئی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے ذریعے پاکستان محض تین برس میں اپنے 90 ارب ڈالر کے قرضے سے نجات پا لے گا اور اس سے اگلے دو برس یہ کثیر رقم عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیوں کر ممکن ہے مگر کوئی بھی ذی شعور شخص ذہن پر زور ڈالے تو یہ معمہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

سنہ 2017 میں ہمارا سالانہ تجارتی خسارہ 36 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ تھا۔ یعنی ہم ہر برس جتنا سامان برآمد کرتے ہیں، اس سے 36 ارب ڈالر زیادہ امپورٹ کر لیتے ہیں۔ یہ بیلنس کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ ایسے کہ ہم ایکسپورٹ بڑھا دیں اور امپورٹس کم کر دیں۔ اگر ہم درآمدات کو برآمدات کے برابر کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تو سال کے سیدھے سیدھے تیس چالیس ارب ڈالر بچنے لگیں گے۔ یعنی اگر ہم امپورٹس پر قابو پالیں تو محض دو تین برس میں اس غیر ملکی قرضے سے نجات پا سکتے ہیں۔ ذرا سوچیں 36 ارب ڈالر کتنے ہوتے ہیں؟ سی پیک کے پانچ سال میں 45 ارب ڈالر کو ہم پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر کہہ رہے تھے تو ہر سال کے 36 ارب ڈالر تو ہر سال معیشت کی گیم بدلا کریں گے۔

ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے عالمی مارکیٹ میں آپ کو مسابقتی ریٹ دینے پڑتے ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر سے مثال لیتے ہیں۔ اگر آپ ایک پینٹ تین ڈالر کی بیچ رہے ہیں اور بنگلہ دیش ویسی ہی پینٹ ڈھائی ڈالر کی بیچے گا تو کلائنٹ اس سے مال خریدے گا۔ فرض کریں کہ پینٹ بنانے پر ہماری لاگت تین سو روپے آتی ہے۔ اگر ڈالر سو روپے کا ہو گا تو پینٹ کی قیمت 3 ڈالر ہو گی۔ لیکن اگر ہم روپے کی قیمت گرا کر دو سو روپے کر دیں تو یہی پینٹ عالمی مارکیٹ میں صرف ڈیڑھ ڈالر کی رہ جائے گی اور یوں ہم بنگلہ دیش کے ڈھائی ڈالر کے ریٹ کو شکست دے کر اپنی پینٹ بیچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر پاکستانیوں نے اپنی پینٹ عالمی منڈی میں نیلام کروانی ہے تو روپے کی قیمت خوب گرانی چاہیے۔

دوسرا پہلو آتا ہے درآمدات کا۔ ہماری قوم عیاشیوں میں پڑ چکی ہے۔ کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ قوم لاکھوں ڈالر کی تو پنیر ہی کھا جاتی ہے۔ غور کریں کہ ہماری قوم عیاشیوں میں پڑنے کے سبب پنیر تک ولایت سے منگوا کر استعمال کرتی ہے حالانکہ ہمارے ملک میں ہر قسم کے وسائل موجود ہیں اور یہاں بھیڑ بکریوں کی ہرگز بھی کوئی کمی نہیں ہے۔

اب اگر امپورٹڈ پنیر دو ڈالر کا ملتا ہے اور مقامی پنیر دو سو روپے کا، تو روپے کی قیمت دو سو روپیہ فی ڈالر ہونے پر درآمد شدہ پنیر کی قیمت چار سو ہو جائے گی۔ جبکہ مقامی پنیر دو سو کا ہی رہے گا۔ یوں قوم اپنے برگروں کے لیے دیسی پنیر خریدنے پر مجبور ہو جائے گی اور ہماری امپورٹس میں ایک نمایاں کمی آئے گی۔

اسی طرح آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ بلاوجہ پیٹرول پھونکنے لگے ہیں جبکہ پیٹرول ہمیں عرب شریف سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ صرف دس بیس برس قبل لوگ گھر سے دو چار کلومیٹر دور بھی پیدل چل کر جایا کرتے تھے۔ اس طرح وہ صحت مند بھی رہتے تھے اور زرمبادلہ بھی بچتا تھا۔ مگر اب کسی نے پچاس فٹ دور بھی جانا ہو تو اپنی گاڑی نکال لیتا ہے۔ اگر ڈالر دو سو روپے کا کر دیا جائے تو پیٹرول کی قیمت بھی دو سو روپے فی لیٹر کے آس پاس ہو گی۔

نتیجہ یہ نکلے گا کہ اچھے بھلے خوشحال لوگ بھی گاڑی موٹرسائیکل کو تالا لگائیں گے اور دوبارہ پیدل چلنے کو ترجیح دینے لگیں گے۔ اس سے صحت کے سیکٹر پر بھی بوجھ کم ہو گا اور پیدل چلنے سے لوگ خوش بھی زیادہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ میڈیکل ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ پیدل چلنے سے ذہن میں خوشی کا ویسا ہی کیمیکل پیدا ہوتا ہے جو محبوبہ کا پیغام ملنے، چرس پینے اور ورلڈ کپ جیتنے سے پیدا ہوتا ہے۔

ایک خود دار قوم کو امپورٹس کی اتنی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ شمالی کوریا کو دیکھ لیں۔ چین کے سوا ساری دنیا نے اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ دنیا والے ایک دھیلے کی تجارت اس سے نہیں کرتے۔ ادھر کوئی میکڈانلڈ، کے ایف سی اور کوکا کولا نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ چاند تک مار کرنے والے راکٹ خود بناتا ہے۔ اسے تو بے مثال ترقی کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اگر ہم بھی شمالی کوریا کی طرح امپورٹس بند کر دیں اور ٹرمپ کو اپنا سرخ ایٹمی بٹن دکھا دکھا کر دھمکانا شروع کر دیں تو امید ہے کہ پاکستانی کی حالت بھی شمالی کوریا والوں کی طرح ہو جائے گی اور وہ دنیا میں فخر سے سر بلند کر کے زندگی گزاریں گے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ آپ بھی حالیہ دنوں میں روپے کی قدر میں گراوٹ کو معیشت کی بحالی کا ایک سوچا سمجھا حکومتی منصوبہ قرار دینے پر مجبور ہو جائیں گے جس سے نہ صرف غیر ملکی قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی بلکہ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ اس ویژن کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے اور ہر ذمہ دار شخص کو چاہیے کہ وہ ڈالر کی قیمت بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالے۔ پرانے پاکستان والے تو خیر حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش میں ایسا نہیں کریں گے، لیکن ہم اپیل کرتے ہیں کہ تبدیلی کے خواہش مند افراد مارکیٹ سے جتنے ڈالر خرید سکتے ہیں، خرید لیں تاکہ ڈالر مزید مہنگا ہو اور نیا پاکستان پکا بنے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar