ہندوستان کا جنسی دھرم تانترا مت کیا ہے؟


چیلا بنانے کا سب سے عام طریقہ کریا دکشا کہلاتا ہے۔ اس طریقے میں کئی رسوم شامل ہو سکتی ہیں۔ جو لوگ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہوں، انہیں چیلا بنانے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ فوری چیلا بنانے کے طریقے کو، جو کہ نہایت مؤثر ہوتا ہے دیدھا دِکشا کہتے ہیں۔ بہت کم لوگ اس کے اہل ہوتے ہیں۔ اس طریقے سے چیلا بننے والا شخص فوراً، گرو، منتر اور دیوتا کے ساتھ اپنے ایک ہونے کا ادراک کر لیتا ہے۔ تانترا کے مطابق وہ عین شیو کی ذات بن جاتا ہے۔ جو لوگ دِکشا کی دوسری قسموں کے ذریعے چیلے بننے ہیں، ان میں سے ہر کوئی اپنی اپنی اہلیت کے مطابق دھیرے دھیرے درجہ درجہ اس حقیقت کا ادراک کرتا ہے۔

چیلا بنانے کا مقصد چیلے کو یہی ادراک دلانا ہے جیسا کہ تانترا خوبصورتی سے کہتا ہے : ” انسان کی اپنی آتما ہی اس کی دیوی ہے۔ کائنات اسی کا روپ ہے“ چیلے کے ایمان کو مرکوز کرنے کے لیے جو شبیہیں استعمال کی جاتی ہیں وہ صرف ذرائع ہیں۔ ہمارے تمام صحیفے اور تانترا کہتا ہے کہ اعلیٰ ترین ہستی کو سمجھنا کو اوسط درجے کے انسان کی بساط سے باہر ہے۔ یہ اعلیٰ ترین ہستی ہی مطلق حقیقت ہے۔ تانترا کہتا ہے ” برہما صرف جنان“ ہے، اور اوسط درجے کا انسان جسم کے بغیر اس کی پوجا نہیں کر سکتا، پس ایک اوسط درجے کا انسان اپنے لیے ایک علامت اختیار کر لیتا ہے۔ تانترا مزید کہتا ہے :” رسوم پرست انسان (وپرا) کا دیوتا اگئی میں ہوتا ہے، کہ جس کو چڑھاوے چڑھاتا ہے۔ مراقبے ولا انسان اپنے دل میں ہوتا ہے۔ جو شخص آگاہ نہیں ہوتا ہے وہ اسے شبیہہ میں دیکھتا ہے لیکن جو شخص آتما سے آگاہ ہوتا ہے وہ اسے ہر کہیں دیکھتا ہے۔ “

تمام تانتر وں کی تعلیمات کے پانچ پہلو ہیں۔ پوجا پہلو اوپر بیان کر دیے گئے ہیں۔ بھگوان کا پانچواں پہلو تمام بیانات اور ہر پوجا سے ماورا ہے کیونکہ یہ اس ادراک تک اپنے چیلے کی رہنمائی کرے۔
چیلا بنیا ایک مطلق ضرورت ہے۔ اس کے لیے سنسکرت میں لفظ ” دِکشا“ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہے ” وہ جو الوہی اشیا کا علم دے اور زوال کی طرف لے جانے والی ہر شے کوفنا کر دے۔ “ تا ہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ جو شخص چیلا بنتا ہے، وہ فی الفور علم حاصل کر لیتا ہے۔ اس سے تو صرف دروازہ کھلتا ہے اور چیلے کو اپنے گرو کی ہدایات کی تحت خود اپنی کوشش سے علم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہمیں مادی علوم، دنیاوی منصبوں اور ترقیوں کے لیے کسی کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا اعلیٰ ترین حقیقت تک رسائی کے لیے ہمیں کسی کی رہنمائی درکار نہیں ہو گی؟

ہندوستانی گرو کسی کو اپنے طریقے کے مطابق چیلا نہیں بناتے بلکہ اسے کی اہلیت کے مطابق چیلا بنایا جاتا ہے۔ جن منتروں کے ذریعے کسی کو چیلا بنایا جاتا ہے، انہیں تخلیق جتنا قدیم مانا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ تخلیق کے حوالے سے تانترا کے اپنے ہی نظریے ہیں۔ اس کے نظر یے عموماً سانکھیہ فلسفے کے نظریوں سے ملتے جلتے ہیں۔ سانکھیہ فلسفے کے مطابق دنیا دو اصولوں پراکرتی اور پُرش سے تخلیق ہوئی ہے۔ پرُش فعال اصول ہے اور پراکرتی غیر فعال۔ پرش وہ ہستی ہے جو شعور کی روشنی سے بھری ہوئی ہے جبکہ پراکرتی میکانکی فطرت ہے جو خود کو شعوری مشایدے اور پرش وغیرہ کے ذریعے ظاہر کرتی ہے۔

تانترا اسی نظریے کو شیو اور برہما یا پرش کے لیے روشنی اور پراکرتی کے لیے شکتی کی اصطلاحوں کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ تانترا کہتا ہے کہ اعلیٰ ترین مرحلہ ” کُلا“ ہے۔ انسان ” کالیکا“ بن جاتا ہے، جو کہ چھ ” اچھروں“ سے گزرتا ہے کہ جس انسان کا ذہن شیو، وشنو، درگا، سوریہ، گنیش اور کلا جناں کے دوسرے مظاہر کے منتروں کے ذریعے پوتر ہو چکا ہوتا ہے صرف وہی کالیکا بنتا ہے۔ تانترا کے پانچ ” تتو“ (اصول) ہیں۔ سنسکرت میں ہر اصول لفظ ”م“ سے شروع ہوتا ہے، اس لیے انہیں ” پانچ میم“ بھی کہا جاتا ہے۔ ان پانچوں کا ترجمہ بالترتیب یہ ہے : شراب، گوشت، مچھلی، دالیں اور جنسی عمل۔ مختلف درجوں کے پجاریوں کے لیے ان پانچوں کے معانی مختلف ہوتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کو تتو درکار ہوتا ہے، شے نہیں۔ شراب کا تتو مسرت اور اندروانی اعضا کی تحریک ہے۔ گرو اپنے چیلوں کو یہ بتاتا ہے کہ ذہن کو ماد ی سطح سے بلند کرنے کے لیے اس مسرت اور متحرک اندرونی حواس کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ جنسی عمل کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گرو دکھاتا ہے کہ کس طرح دونوں اعمال یعنی شراب نوشی اور مجامعت کو، جو کہ انسان کو پستی کی طرف لے جانے ہیں، جانوروں کی طرح صرف حسی لذت کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ایک اعلیٰ مقصد کے لیے سر انجام دینا چاہیے۔

چونکہ پانچواں تتو ایک نئی زندگی کی تخلیق کا باعث بنتا ہے لہٰذا یہ بہت مقدس ہے اور اسے نہایت احتیاط کے ساتھ سر انجام دیا جانا چاہیے۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ یہ تتو جنسی بے قاعدگیوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ تو کہتا ہے کہ عصمت کا زیاں زندگی کو کھونا یا کم کرنا ہوتا ہے، چنانچہ عصمت کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے۔ انسان بھگوان کو صرف پوتر اور پاک شے ہی پیش کرتا ہے۔ پوجا میں ان پانچ اصولوں کو استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان پر بار بار عمل کرتے رہنے سے انسان ایسی فطرت پالے کہ وہ عام زندگی میں جو کچھ بھی کرے، وہ پوجا بن جائے۔ شنکر اچاریہ اولین شکتی کے لیے لکھے گئے اپنے شاندار گیت مکے آخر میں کہتا ہے :” اسے سب اعلیٰ ناری! میرے ذہن کا ہر عمل تیری یاد بن جائے، میرا ہر لفظ تیری ستائش بن جائے، میرا ہر عمل تیری بندگی بن جائے۔ “ ذہن کی ایسی ہی کیفیت کے لیے ہی پوجا میں ان چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

چیلے کو اپنے گرو سے ان پانچ تتو کا درست استعما ل اور ان کی حقیقی اہمیت سیکھنا، جاننا ہوتی ہے۔ انسان جھوٹے اور بزدلانہ اعمال کے ذریعے ارتقا نہیں پاتا، یہ تو اسے پستی میں گرا دیتے ہیں۔ یہ طریقہ ہر شخص کی صلاحیتوں سے میل نہیں کھا سکتا۔ سادھوؤں میں گانجا پینے کا رواج تا نترامت کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔

تانترا آریائی امتزاجی ثقافت کا آخری امتزاج اور ہم آہنگی ہے، جس میں ایک دوسرے سے مختلف اور بعض اوقات متصادم انسانی رجحانات کو ایک دوسرے کے موافق کیا جاتا ہے اور ہر ایک باقی سب سے اس طرح جڑا ہوتا ہے کہ اس کا ارتقا یقینی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2