مذہب اور ثقافت


انسانی تاریخ میں مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے انسان کو جو آثاریات کے علم سے شواہد ملے ہیں ان کے مطابق قدیم ترین انسانی تہذیب میں بھی مذہب کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے۔ ہمارا مذہب اسلام آخری الہامی مذہب تھا جو حٖضور ﷺ کے توسط سے ہم تک پہنچا۔ اسلام جزیرہ عرب سے نکلا اور پوری دنیا میں پھیل گیا۔ جس طرح کسی بھی انسانی معاشرے میں مذہب کی اہمیت ہے اسی طرح کسی معاشرے کی ثقافت بھی اس میں رہنے والے انسانوں کے رویہ کی تشکیل کرتی ہے۔ مذہب اور ثقافت دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ہمارا مذہب اسلام عرب علاقے سے پوری دنیا میں پھیلا وہاں کے لوگ اسلام کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عرب ثقافت بھی ساتھ میں لائے جو کہ ایک فطری سی بات ہے۔

ہمارے معاشرے میں اسلام آنے سے پہلے ہندو اور بدھ مت مختلف شکلوں میں رائج تھا اور اسی طرح اس علاقے کی اپنی ایک ثقافت تھی۔ اسلام کے آنے سے اور مسلم فاتحین کی آمد سے یہاں کی مذہبی روایات پہ تو اثر پڑا ہی، ساتھ ہی ثقافتی طور پر بھی یہ خطہ تبدیلیوں سے گزرا۔ یہ ایک پیچیدہ عمرانی عمل تھا جس سے گزر کر ہم آج کے دور تک پہنچے ہیں۔

آج جب مغربی ثقافت عروج پہ ہے اور اس کے اثرات ہمارے معاشرے تک پہنچ رہے ہیں تو ہمارے معاشرہ میں ایک عجیب سی کشمکش شروع ہو گئی۔ ہمارے معاشرے میں ایک طبقے نے بغیر اس بات کو سمجھے کہ ثقافت کوئی منجمد شے نہیں ہے اور اسکی روایات کا تبدیل ہونا ایک فطری عمل ہے جس کو روکنے کی کوشش کرنا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں، مذہب کے نام پر اس کی مزاحمت شروع کر دی۔

جو بات وہ سمجھنے سے قاصر رہے، وہ یہ تھی کہ مذہب کی تعلیمات ایک شے ہیں اور عرب کی ثقافت ایک اور۔ مثال کے طور پر لباس کے متعلق جو عرب روایات اْس وقت تھیں وہ آج کے دور میں بلکہ اْس دور میں بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں رائج کرنا ممکن نہ ہوتا۔ سرد ممالک کے لوگ گرم خطہ کے لوگوں والا لباس نہیں استعمال کر سکتے۔ ویسے بھی لباس کا تعلق ثقافت سے ہے اور اس میں موسم کے علاوہ بھی بہت سے عوامل کا کردار ہوتا ہے۔

اسی طرح اور بھی چیزیں تھیں جو کہ اپنی اصل میں ثقافت کا حصہ تھیں لیکن ان کو مذہب کی تعلیمات کا حصہ بنا کر ایک تصادم کا آغاز کر دیا گیا۔ اس سارے قضیہ میں ایک نقصان تو یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل اور پرانی نسل میں فاصلہ پیداہو گیا اور مذہبی لوگ اپنے معاشرہ میں ہی اجنبی بن کے رہ گئے۔ دوسرا اصل نقصان مذہب کا ہوا کہ اس کی اصل تعلیمات بھی ثقافتی یلغار میں آ گئیں اور نوجوان نسل کے ذہن میں مذہب اور ثقافت ایک دوسرے کے مقابل بن گئے۔ اب اس تصادم میں کون فاتح بن کے ابھرا، اس کا حال آپ اپنے معاشرہ میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔

آج ہمارے معاشرے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ذہنوں میں ثقافت اور اسلام کے تصورات کو واضح طور پرسمجھیں اور اپنی نئی نسل کو بھی اس بات کو شعور دیں کی اسلام ایک جدت پسند نظامِ حیات ہے جو اپنی بنیادی تعلیمات پر کوئی اثر قبول کیے بغیر دنیا کی ہر ثقافت کے ساتھ چل سکتا ہے۔ اس طرح ہی ہم نئی نسل کو اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ زمانے میں چلنا سکھا سکتے ہیں ورنہ ہم اور ہماری نئی نسل زمانے کی رْو میں بہتے جائیں گے اور ہمارا مذہب آنے والی نسلوں کے لیے اجنبی بنتا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).