منظر بھائی امیتابھ سے بڑے فنکار ہیں


منظر بھائی انچولی میں ضرور رہتے ہیں لیکن ان کا تعلق امروہے سے نہیں ہے۔ امروہے میں بھی بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں لیکن میں ایک بار پھر زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ منظر بھائی کا تعلق امروہے سے نہیں ہے۔ ان کا تعلق الہ آباد سے ہے۔ امیتابھ بچن کا تعلق بھی الہ آباد سے ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ بھی منظر بھائی جتنا بڑا فنکار نہیں۔

منظر بھائی کو میں نے پہلی بار جب دیکھا، تب میں بارہ سال کا تھا۔ چہرے پر رونق تھی، آنکھوں میں چمک تھی، بال کالے تھے۔ نیکر پہنتا تھا، اسکول جاتا تھا، چیونگم کھاتا تھا، ہم عمر بچوں کے ساتھ گلی میں کھیلتا تھا۔

تب منظر بھائی ادھیڑ عمر آدمی تھے۔ اگر نہیں تھے تو لگتے تھے۔ میانہ قد، چہرے پر خشونت، نگاہ میں شکوک کے سائے اور زبان میں تلخی بھری تھی۔ کرکٹ کے شوقین تھے۔
آج میں چھیالیس سال کا ہوں۔ چہرے پر بے چارگی ہے۔ آنکھوں میں دھندلاہٹ ہے۔ بالوں میں سفیدی ہے۔ خوبصورت لڑکیاں انکل کہتی ہیں۔ انڈور یا آؤٹ ڈور کچھ کھیلنے کی عمر نہیں رہی۔
منظر بھائی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔

جب کوئی لکھنے والا کسی ممدوح کا خاکہ لکھتا ہے تو بتاتا ہے کہ وہ کب پیدا ہوئے۔ منظر بھائی پیدا نہیں ہوئے تھے، دریافت کیے گئے تھے۔ وہ بہت قدیم ہیں اور قائم علی شاہ اور انتخاب عالم جیسے لوگ ان کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔ انچولی کے بعض بوڑھے بتاتے ہیں کہ حضرت آدم جب سری لنکا میں اترے تو سب سے پہلے ان کی ملاقات منظر بھائی سے ہوئی تھی۔ حضرت آدم کے منہ سے پہلا جملہ بھی یہی نکلا تھا، ”ارے منظر بھائی! آپ یہاں؟ ‘‘

منظر بھائی کرکٹ کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ وہ کئی سنچریاں بناچکے ہیں۔ ایک بار میں نے دریافت کیا کہ آپ نے وہ سنچریاں کہاں بنائی تھیں؟ منظر بھائی نے بتایا، ”اپنے گھر کی چھت پر۔ ‘‘
منظر بھائی نے ہارڈ بال سے بھی کئی کلب میچ کھیلے ہیں۔ ایک شام انھوں نے رقت آمیز لہجے میں بتایا کہ انھوں نے آج آخری میچ کھیل کر کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ فیصلہ کیوں کرنا پڑا؟ انھوں نے گلوگیر لہجے میں بتایا کہ اس دن انھوں نے کلب میچ میں اپنی جادوئی بولنگ سے تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس سے بڑا کارنامہ زندگی میں ممکن نہیں۔ چنانچہ وہ حسین یادوں کے ساتھ کرکٹ کو خیرباد کہنا چاہتے ہیں۔

منظر بھائی نے ٹینس بال کرکٹ جاری رکھی اور اپنے گھر کے عین سامنے سادات کرکٹ گراؤنڈ پر ہر شام ہونے والے دوستانہ میچوں میں کئی سال تک شریک ہوتے۔ وہ ایک شفیق استاد تھے اس لیے ہر بیٹسمین کو چوکے اور چھکے لگانے کی پریکٹس کرواتے تھے۔
نوے کے عشرے میں رات کو کھانا کھانے کے بعد میں، شباہت، کاظم چیپل اور منظر بھائی امروہا گراؤنڈ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے اور حالات حاضرہ اور مستقبل پر بات کرتے۔

ایک دن طے پایا کہ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے اور ہم سب کو ملک سے باہر چلے جانا چاہیے۔ منظر بھائی نے کاظم چیپل سے پوچھا کہ امریکا کا ویزا اپلائی کرنے والوں سے انٹرویو میں کیا سوالات کیے جاتے ہیں؟ کاظم چیپل ہم جیسے لڑکوں کے سوالات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ لیکن منظر بھائی کا سوال بہت اہم تھا۔ کاظم چیپل نے بتایا کہ انٹرویو کے لیے اچھی طرح استری کی ہوئی نئی پینٹ شرٹ پہن کر جائیں۔ ویزا افسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اطمینان سے جواب دیں۔ مترجم لینے کے بجائے انگریزی میں بات کریں۔ اسے یقین دلائیں کہ آپ بہت اچھا بزنس کرتے ہیں اس لیے زیادہ دن ملک سے باہر نہیں رہ سکتے۔ جلد واپس لوٹ آئیں گے۔

گفتگو طویل ہوگئی۔ میں اور شباہت بور ہوکر اٹھے اور میدان کے ایک دو چکر لگائے۔ پھر شبو کو خیال آیا کہ میٹھا پان کھانا چاہیے۔ گولڈن پان شاپ جاکر پان کھائے۔ واپس آکر دیکھا کہ منظر بھائی کرید کرید کر امریکا کے بارے میں سوال کررہے ہیں اور کاظم چیپل کا خطبہ جاری ہے۔ انھوں نے ہر سوال کا تفصیلی جواب دیا اور بتایا کہ نیویارک کافی مہنگا ہے، وہاں مت جانا۔ ہیوسٹن میں زیادہ پاکستانی ہیں۔ فی گھنٹا کتنے ڈالر ملتے ہیں۔ گاڑی کون سی خریدنا۔ سیاہ فام یا میکسیکن لوگوں کے علاقے میں گھر مت خریدنا۔

جب ہم ایک ایک پان اور چبا چکے اور منظر بھائی چپکے ہوئے تو کاظم چیپل نے سکون کا سانس لیا۔ لیکن منظر بھائی کے پاس سوالات ختم نہیں ہوئے تھے۔ اگلا سوال انھوں نے شباہت سے کیا، ‘‘شبو! پاسپورٹ آفس کہاں ہے اور پاسپورٹ فیس کتنی ہے؟ ‘‘

کاظم چیپل نے پوچھا، ‘‘منظر! میں سمجھ رہا تھا کہ تم امریکا کی فلائٹ بک کراچکے ہو۔ تم نے تو ابھی پاسپورٹ بھی نہیں بنوایا۔ لعنت اللہ علی قوم الکاذبین۔ ‘‘ وہ بکتے جھکتے اٹھ گئے۔ منظر بھائی کہنے لگے، یار! میں نے کب کہا تھا کہ امریکا جارہا ہوں؟ میں تو صرف پوچھ رہا تھا۔

منظر بھائی نہ صرف انچولی میں میرے محلے دار رہے بلکہ ایکسپریس اور جیونیوز میں بھی کولیگ تھے۔ انھیں کھانے کا کوئی شوق نہیں۔ جو نظر آجائے، صبر شکر سے بہت سا کھا لیتے ہیں۔ یہ جاننا بھی پسند نہیں کرتے کہ کیا ہے اور کس کا ہے۔ شادی بیاہ کی دعوت اور محرم کی نیاز میں دیگ کا ڈھکنا اٹھانے سے آغاز کرتے ہیں اور پلیٹیں دھونے کے اختتام پر رک جاتے ہیں۔

ایکسپریس کے زمانے میں منظر بھائی بہت بڑا لنچ بکس لاتے تھے۔ ایک بار کسی نے پوچھا کہ اتنا زیادہ کھانا کیوں لاتے ہیں؟ منظر بھائی نے بتایا کہ امی سے کہتا ہوں، مبشر بہت غریب ہے۔ وہ کھانا نہیں لاتا۔ مجھے زیادہ کھانا دیا کریں۔ ایک رات دفتر کی کینٹین میں سب کھانا کھانے بیٹھے تو میں اور منظر بھائی ایک میز پر تھے۔ وہ اپنے ڈیسک سے لنچ بکس اٹھا کر نہیں لائے تھے۔ کوئی لڑکا ان کا ڈبا اٹھا لایا۔ انھوں نے جلدی سے اٹھ کر چھین لیا۔ لڑکے نے دوبارہ چھین کر ڈبا کھولا تو خالی۔ سب ہکابکا رہ گئے۔ میں نے پوچھا، کھانا کدھر گیا؟ منظر بھائی نے بتایا کہ دفتر آتے ہوئے راستے میں بھوک لگ گئی تھی، کھالیا۔

ایکسپریس کے دنوں میں سب سہہ پہر کو دفتر آتے اور مغرب سے پہلے سب کو بھوک لگ جاتی۔ اس بھوک کو مٹانے کے لیے ڈیفنس ویو سے سموسے اور جلیبیاں منگوائی جاتیں۔ ایک دن ایڈیٹر نیر علوی صاحب اسپورٹس ڈیسک پر پہنچے تو سموسے ختم ہوچکے تھے اور صرف جلیبیاں بچی تھیں۔ علوی صاحب نے دریافت کیا، یہ جلیبیاں کیوں آئی ہیں؟ میں نے عرض کیا، سر! منظر بھائی کی منگنی ہوگئی ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے منظر بھائی کو گلے لگاکر مبارکباد دی۔ منظر بھائی کھسیانی ہنسی ہنس دیے۔

چند دن بعد علوی صاحب ہمارے کمرے میں آئے تو پھر جلیبیوں کا ڈبا رکھا تھا۔ انھوں نے پوچھا، آج جلیبیاں کس خوشی میں آئی ہیں؟ ‘‘ میں نے بتایا کہ منظر بھائی کی منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ یہ جلیبیاں لڑکی کی جان بچنے کی خوشی میں منگوائی گئی ہیں۔ ‘‘

میری شادی ایکسپریس کے زمانے میں ہوئی تھی۔ ایک بار علوی صاحب ہمارے ڈیسک پر آئے تو منظر بھائی سے کہا، اب تو آپ کے سامنے کے بچے کی بھی شادی ہوگئی ہے۔ آپ کیوں نہیں کررہے؟ میں نے پھر مداخلت کی، ”سر! ایک جگہ منظر بھائی کا رشتہ طے پاگیا ہے۔ لڑکی والے فلیٹ دے رہے ہیں۔ اور کار بھی دے رہے ہیں۔ اور فریج بھی دے رہے ہیں۔ اور ٹی وی بھی دے رہے ہیں۔ ‘‘ ایڈیٹر صاحب بہت خوش ہوئے۔ پوچھا کہ پھر مسئلہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ظالم لوگ سب کچھ دینے کو تیار ہیں لیکن لڑکی دینے کو تیار نہیں۔

میں ایکسپریس کے بعد جنگ پہنچا اور دو سال وہاں کام کیا۔ جیونیوز جوائن کیے ہوئے کچھ عرصہ ہوا تھا کہ جنگ کے بزرگ صحافی ولایت علی اصلاحی نے طلب کیا۔ وہ مجھ پر بہت مہربان تھے اور بہت شفقت کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جیونیوز میں آپ کے سیکڑوں کولیگ ہوں گے۔ کیا کوئی منظر صاحب ہیں؟ اگر آپ انھیں نہیں جانتے تو کسی سے معلوم کرکے بتائیں کہ کیسے آدمی ہیں؟ ان کا رشتہ ہمارے ایک دوست کی بیٹی کے لیے آیا ہے۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا، اصلاحی صاحب! اتفاق سے منظر صاحب کو میں کئی صدیوں سے جانتا ہوں۔ میں ان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بتاؤں گا۔ ہرگز نہیں۔ اصلاحی صاحب معنی خیز انداز میں ہنسے اور کہا، اچھا میاں جاؤ۔

سنا ہے کہ لڑکی کا کوئی رشتے دار چھان بین کرنے کے لیے جیونیوز پہنچا۔ پرنٹنگ ہاؤس کی چھٹی منزل پر جیونیوز کا دفتر ہے۔ وہاں ایک رپورٹر منیبہ کمال کھڑی ہوئی تمباکونوشی کررہی تھیں۔ رشتے دار صاحب نے پوچھا، ”یہاں کوئی منظر صاحب کام کرتے ہیں۔ ‘‘ منیبہ کمال نے دھواں اڑاتے ہوئے کہا، ”کون؟ منظر! وہ تو اپنا یار ہے۔ ‘‘ رشتے دار الٹے پاؤں لوٹ گیا۔

نوے کے عشرے ہی کی کسی شام کا ذکر ہے، میں، شبو اور منظر بھائی انچولی میں کرکٹ گراؤنڈ کی بینچ پر بیٹھے گفتگو کررہے تھے۔ اس روز کسی شیعہ مسجد پر حملہ ہوا تھا اور کئی افراد شہید ہوگئے تھے۔ باتیں کرتے کرتے منظر بھائی جذباتی ہوگئے۔ انھوں نے چیخ کر کہا کہ میں دہشت گردوں کے مرکز پر فدائی حملہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ فدائی حملہ کیا ہوتا ہے؟ منظر بھائی نے کہا کہ اگر مجھے کہیں سے بم مل جائے تو میں پیٹ پر بم باندھ کر دہشت گردوں کے مرکز میں گھس جاؤں گا۔

شباہت کھڑا ہوا اور کہیں جانے لگا۔ میں نے پوچھا، کدھر جارہے ہو؟ اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا، بم لانے جارہا ہوں۔ منظر بھائی بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے دریافت کیا، آپ کہاں چلے؟ منظر بھائی نے شباہت سے بھی زیادہ سنجیدگی سے کہا، ”امی سے پوچھنے جارہا ہوں۔ ‘‘

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi