جمہوریت۔ کھیل یا کھلواڑ


اس نے شرارتی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور سوال کیا۔ پاکستان کا آج کل مقبول اور مشہور کھیل کون سا ہے۔ میں نے غور سے اس کے چہر ے کو دیکھا۔ وہ پھر مسکرائی اور اپنے سوال کو دہرایا۔ مجھے ایک لمحہ کو غصہ بھی آیا مگر میں نے اظہار نہیں کیا۔ میں مسلسل سوچے جارہا تھا پاکستان میں کھیل تو کوئی بھی مشہور اور مقبول نہیں۔ کھلواڑ ضرور ہورہا ہے یا پھر لوگ اپنی اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے لگے ہیں۔ میری خاموشی اور سوچ نے اس کو ذرا سا بے چین بھی کردیا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو میرے آسان سوال کا جواب بھی معلوم نہیں۔ مجھے اپنی بے چارگی کا احساس تھا۔ اچھا تو تم ہی بتا دو۔ کوئی نئی کتاب نے سوال بتایا ہوگا آج کل اچھی کتابوں کا قحط سا ہے۔ مگر میرا سوال اتنا مشکل بھی نہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں پاکستان میں اس وقت مقبول اور مشہور کھیل سیاست ہے۔ ہماری ریاست ملکی اور غیرملکی سیاست میں پھنسی ہوئی ہے اور تمام ملک میں سیاسی کھیل بامِ عروج پر ہے۔ میں اس کے جواب کو جھٹلا نہ سکا۔

ہمارے گردوپیش میں سیاست کا کھیل جمہوریت کے میدان میں کھیلا جارہا ہے۔ اس کھیل کے اہم فریق ہمارے سیاست دان، سرمایہ دار اور اشرافیہ اور اب نوکرشاہی بھی شامل ہوگئی ہے جبکہ اصولی اورقانونی طور پر جمہوریت کے میدان میں نوکر شاہی کا کردار محدود ہونا چاہیے۔ مگر ان کو اتنی ہمت اور جرات ہمارے سیاست دانوں نے دی ہے اور نوکرشاہی کے کندھے استعمال کرکے وہ سیاست کے کھیل کو بھی بے وقار کررہے ہیں۔ ہمارے جیسے غریب اور لاچار ملکوں کے لیے جمہوریت کا نظام کسی بھی شکل میں مفید نظر نہیں آتا پھر جمہوریت کے نظام کو ذرا بدل کر صدارتی بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ ہمارے قدردان اور دوست ملک میں جمہوریت تو ہے مگر اس کا ماسک صدارتی ہے اور امریکی صدر تقریباً تمام اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی سپریم کورٹ میں ایک نئے جج کو رکھنا مقصود تھا۔ امریکی سینٹ اور امریکی کانگرس نئے جج کے بارے میں واضح تقسیم تھی۔ مگر صدر ٹرمپ کے اختیار نے جمہوریت کے کسی اصول کا خیال نہیں کیا اور من مانی سیاست کرکے متنازعہ جج کو سپریم کورٹ میں لگا ہی دیا۔

اب پاکستان میں جو سیاسی دنگل جاری ہے اس میں جمہوریت بدنام ہوتی نظر آرہی ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد ہمارے سیاست دان جو ووٹوں کی وجہ سے نا اہل ہوئے وہ انتخابات کے نتائج کو ماننے کو تیار نہیں۔ ان کا جمہوریت پر ایمان کمزور سا ہے۔ پھر جو لوگ انتخابات میں کامیاب ہوکر اسمبلی اور سینٹ کے ممبر بنے ہیں، وہ بھی ہارنے والوں کے حلیف ہیں اور الزامات میں جمہوریت کو ہی کوستے نظر آتے ہیں۔ ان میں اکثر لوگ ایک عشرہ سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبر رہے ہیں مگر اسمبلی میں ان کا کردار جمہوریت دشمن نظرآتا ہے۔ ایک ممبر قومی اسمبلی کو پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے پراعتراض ہے ان کے بقول پختونوں کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف وہ شہریت کے نئے قوانین پر بے جا تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کو بھی نئی سرکار پر اعتماد نہیں ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ ان کے ہمنوا باقی لوگ قومی اسمبلی اور سینٹ کا ماحول خراب کرکے رکھتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کو ’عزت اور وقار‘ دے رہے ہیں۔

ہمارے قومی اسمبلی اور سینٹ کے کافی لوگ مسلسل قومی اداروں پر تنقید کرتے نظرآتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی قومی اداروں کو خودمختار اور آزاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت مرکز میں تحریک انصاف کی سرکار ہے جو معمولی اکثریت کی بنیاد پر سرکار بناسکی ہے اور ان کے لیے اپنے طور پر قانون سازی مشکل ہے۔ جمہوریت کے دعویدار عوام کے مفاد میں کوئی بھی قانون بنانے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور نہ ہی فریقین کے پاس عوامی مفاد میں کوئی قانون سازی کا پروگرام ہے۔ ملک کا اہم مسئلہ بدنیتی اور بدانتظامی ہے اور اس معاملہ پر قانون سازی عوام کے مفاد میں ہونی ہے مگر جمہوریت میں مخالفت سے ہی عوام کے مفاد کا سودا ہوتا ہے۔ حزب مخالف اپنا سودا خوب بیچ رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر شہبازشریف کو نیب نے مطمئن نہ کرنے پر حراست میں لے لیا ہے اور ان سے تفتیش ہورہی ہے۔ اس پر ساری حزب اختلاف سیخ پا ہے۔ نیب ایک خودمختار قومی ادارہ ہے۔ اس کے چیئرمین پر دوست دشمن اعتراض کررہے ہیں۔ ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو احتساب کو باوقاربناسکے اور ہمارے ہاں احتساب اور تفتیش ہی جمہوریت کو کمزور کرتے نظر آتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں سینٹ کے سابق چیئرمین جناب سینیٹر رضاربانی بڑے پریشان نظر آئے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک چیئرمینی کی مگر روایات کے معاملہ میں ہماری سینٹ بانجھ ہے۔ چند ہفتے پہلے سینٹ کے انتخابات ہوئے تھے۔ نئے چیئرمین کا انتخاب پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے مل جل کر کیا تھا ا ور یہ بھی الزام لگا کہ سینٹ میں نشستوں کے سلسلہ میں خرید و فروخت بھی ہوئی ہے۔ کچھ ایسا ہی الزام سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے کی جانب سے لگایا گیا۔ ان کو الیکشن کمیشن نے بلا لیا اور صفائی مانگی۔ موصوف فرمانے لگے میڈیا نے غلط خبردی جبکہ کلپ موجود ہے۔

ایسی شہادت کو تسلیم نہ کرنا الیکشن کمیشن کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پردھان سابق جسٹس سردار رضا قانون اور انصاف کے معاملہ میں کمزور نظر آتے ہیں اور یہ کمزوری ہی جمہوریت کے مقدر کے لیے خراب ہے۔ نئے پاکستان میں الیکشن کمیشن کو اپنی ہیئت بدلنی ہوگی۔ الیکشن سے جڑے معاملات پر مقررہ وقت میں انصاف کرنا جمہوریت کے لیے بہتر ہوگا۔ مگر جمہوریت کا جو کھیل پاکستان کے سیاست دان کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے۔ ووٹ کی حرمت کا دعویٰ کرنے والے لوگ خاموشی سے اپنے معاملات طے کرواتے لگ رہے ہیں۔

ان حالات میں جب حزب اختلاف اپنے باہمی اختلافات کی وجہ سے اسمبلی اور سینٹ میں کمزور نظر آرہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ نیب کا احتسابی ردعمل ہے۔ اگرچہ نیب نے کئی لوگوں کی نشاندہی کردی ہے جو ملک میں بدنیتی، بدانتظامی اور لوٹ مار میں واضح نظرآتے ہیں۔ سابق حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ نیب کے الزامات پر صفائی دیتے نظر نہیں آتے۔ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے لیے سرگرم عمل ضرور ہیں مگر اپنے اقدامات کی صفائی نہیں دیتے۔ جب وہ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین تھے تو انہوں نے کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا جو اچھی روایت ہی بن سکتا۔ اب وہ حزب اختلاف کے میاں شہبازشریف کے حلیف ضرور ہیں مگر ان کا کردار جمہوریت کے لیے باعث تشویش ہے۔ تحریک انصاف کو ابتدامیں مشکلات کا سامنا ہے مگر عمران خان میں حوصلے کی کمی نظر نہیں آتی اور وہ جمہوریت کے فلسفہ پریقین کروانا چاہتا ہے۔ اس کی آواز گونج رہی ہے۔

میں ہوں آپ کا آنے والا کل
میں ابھی زندہ ہوں
مگر بہت کمزور ہوں
مجھے مرنے نہ دینا
میں پاکستان ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).