آئی ایم ایف اور پاکستان؟


آج اگر دنیا کی معاشی قوتوں کی طرف نظر دوڑائی جائے تو امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی بلترتیب دنیا کی مضبوط ترین معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ وہ معاشی استحکام کے کوہ ہمالیہ ہیں جو پیداواری صلاحیت اور پیداواری عمل میں سب سے آگے ہیں۔ ان ممالک کی تگڑی معشیت کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ جس ملک کی جتنی زیادہ فی کس پیداوار ہوگی اتنا ہی اس ملک کے معاشی استحکام کو تقویت ملے گی اور عوام کا معیار زندگی بلند ہوگا۔

79ء سے قبل چین ایک سوشلسٹ معشیت مانی جاتی تھی جس کا زیادہ تر انحصار مصنوعی اور نظریاتی تقسیم پر تھا۔ جس کے باعث آزاد پیداواری قوتوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں تقویت نہ دینے کے سبب اسے ہر سال قحط سے دوچار ہونا پڑتا تھاآج بھی چین کی تاریخ کے پرت کھول کر دیکھ لیں1958۔ 61ء کے دوران چین کو جب ایک بڑے قحط سے دوچار ہونا پڑا تھا تب چین کی دھرتی پر بسنے والی تقریبا ساڑھے تین کروڑ زندگیاں موت کے ہاتھوں شکست کھا گئیں تھیں۔ اس کے بعد چین نے جب اپنا رخ معاشی مارکیٹ کی جانب موڑا تو اس نے اپنی مارکیٹ کو زیادہ سے زیادہ آزاد و خودمختار بنایا جس کے نتیجے میں پینتیس برس کے دوران چین نے دس فیصد سالانہ ترقی کے اہداف کو چھوتے ہوئے اپنی معاشی طاقت میں بتیس گنا اضافہ کیا اور ان پینتیس سالوں میں چین کبھی بھی قحط سے دوچار نہیں ہوا۔ عوام کا معیار زندگی بلند ہوتا چلا گیا اور آج چین دنیا میں اپنے آپ کو دوسری بڑی معشیت کے طور پر منوا چکا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک اور قوموں کی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ آگے بڑھنے اور خود کو بہتر کرنے کی کوشش ہی معاشی استحکام کی جانب گامزن کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پیداوار میں اضافہ یا معشیت کی بہتری کی جانب حقیقی سفر کا آغاز اسی وقت ہوتا ہے جب معاشرے میں بسنے والے افراد میں محنت، مثبت معاشی فیصلوں کی سرگرمیوں کو پروان چڑھایا جائے۔ ستر کی دہائی میں پاکستان کے معاشی استحکام کو ایشیاء کے لئے بہترین مثال سمجھا جاتا تھا اس وقت ملکی معشیت کا انحصار قرض، عالمی امداد اور اوورسیز پاکستانیوں کے بھیجے جانیوالے پیسوں کی بجائے ملک کی صنعتی پیداوار پر تھا۔

آج اگر ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ملکی تاریخ کے دھارے پر ڈالر کے اضافہ نے جو کروٹ لی ہے اس سے قبل کبھی ڈالر کی قیمت اتنی بلند ترین سطح پر نہیں پہنچی ڈالر کی قیمت میں ہو شربا اضافے سے جہاں کمر شکن مہنگائی کے سیلاب نے بیس کروڑ عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہیں ملکی قرض بھی نو سو ارب روپے کے اضافہ کی حدوں کو چھوتا نظر آرہا ہے اور ملکی معشیت کو بھی تاریخی جھٹکا لگا ہے۔ ملک کے دگر گوں معاشی حالات نے جہاں عام آدمی کے چولہے کو ٹھنڈا کر دیا وہیں معاشی استحکام بخشنے کے دعوے بھی صرف پچاس دن میں ہی زمین بوس ہو گئے۔

تشویشناک ابتر معاشی حالات کی دستک سے عوام ناقابل برداشت درد سے کراہ اٹھے ہیں جس گرانی سے بیس کروڑ عوام کے کندھے جھک چکے ہیں۔ شاید فیصلے کرنیوالے ملکی حکمرانوں کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ آج پچاس دن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی سوچ بچار اس نتیجے پر منتج ہوئی ہے کہ ریاستی امورچلانے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کے لئے آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹایا جائے۔ جب سے پاکستان تحریک انصاف نے زمام اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے لے کر ابتک وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے وزراء دفاتر میں بیٹھ کر طمانیت کے ساتھ بڑے خشک انداز میں شماریات کی زبان میں بات کرتے نظر آرہے ہیں۔

میں یہ مانتا ہوں کہ معشیت کے ہاتھ میں بیساکھیاں تھمانے والی موجودہ حکومت نہیں ہے بلکہ یہ پچھلی حکومتوں کی کارکردگی کا ہی شاخسانہ ہے لیکن افسوس ناک صورتحال تو یہ ہے کہ ابھی تک حکومت عوام کو اندھیروں سے پھوٹنے والی سحر کی امید نہیں دلا سکی گو جن ملکی معاملات اور فیصلوں کو لے کر حکومت آگے بڑھ رہی ہے وہی ملک و ملت کی بہتری کے ضامن ہوں لیکن عوام کو مایوس کن صورتحال سے نکالنے کے لئے بھی سمت کا تعین ہونا ضروری ہے۔ 90ء سے لے کر ابتک حکومتیں دس بار آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا کر خطیر قرض حاصل کر چکی ہیں اور اب موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے میں ہی اکتفا کیا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جن ممالک نے بھی آئی ایم ایف سے مکمل طور پر قرض حاصل کیا وہ ملک معاشی طور پر تباہ ہو گئے ہیں لاطینی امریکہ کے ممالک کی مثال آج بھی تاریخ کے اوراق پر درج ہے جن کو آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے 80ء کی دہائی میں مالیاتی بحران سے دوچار ہونا پڑا تھا 1997ء کو جنوب مشرقی ایشیاء میں مالیاتی بحران کا سونامی جو تباہی لایا تھا اس بحران کو بھی ان پالسیوں کا ہی نتیجہ کہا جاتا ہے جو ان ممالک نے آئی ایم ایف کے کہنے پر اپنے ممالک میں نافذ کی تھیں۔

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہی کسی بھی ملک و ملت کے معاشی استحکام کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 2012ء میں ا ائی ایم ایف کے سربراہ کرسٹین لگار ڈی نے بیان دیا تھا کہ جب آئی ایم ایف کے اطراف کی دنیا پر معاشی زوال آتا ہے تو ہم ترقی کرتے ہیں کیونکہ ہم قرض دیتے ہیں اور ہمیں اس کے عوض سود، فیس اور بہت کچھ ملتا ہے ادارے کو خوب منافع ملتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر اگر من و عن عمل کیا جائے تو پھر غریب ممالک کے پاس چارہ نہیں رہتا کہ وہ مزید قرض نہ لے اس کے بعد آئی ایم ایف غریب ممالک کو اتنی رقم قرض دیتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ بین الا اقوامی قرضوں کا سود ادا کر سکیں

ان اصلاحات کے نتیجے میں ملکی دولت آئی ایم ایف کے پاس چلی جاتی ہے اور اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے جس سے غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا اس کی معاشی تقدیر کے لئے بہتر ہو گا یا نہیں لیکن سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا ہم ایک ضرورت مند معشیت کی طرح ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چلنا چاہتے ہیں یا پھر دنیا کی مضبوط معشیتوں کے ہم پلہ ہو کر سر فخر سے بلند کر کے جینا چاہتے ہیں۔

کشکول ہاتھ میں تھامنے والے کو معاشرہ میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی نظر میں بھی ناپسندیدگی کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے پر عزم ہے تو پھر ضروری ہے کہ عوام کو معاشی عمل کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے اور اس معاشی عمل میں ان کے مفادات کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کیا جائے اگر ہم افراد کو معاشی عمل کی گاڑی میں سوار نہیں کریں گے تو پھر ہم جتنے چاہے قرض لے لیں، جتنے چاہے میگا پروجیکٹ بنانے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، جتنے چاہے معاشی استحکام کے ڈونگرے بجا لیں، آئی ایم ایف آپ کی شہ رگ سے لہو سود سمیت نچوڑتا رہیگا اور معاشی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).