نئے پاکستان کے نئے دیہات


لاہور اور مادر علمی کی چہل پہل سے دُور جب بھی میں اپنے گاوں آیا، تو اپنے آپ کو دنیا کی برق کی سی رفتار سے چند قدم دُور پایا۔ اس خوش قسمت گاوں کی ترقی کا اندازہ یہاں سے لگا لیں، کہ اس کی چار سو سالہ تاریخ میں آج تک کسی نے اخبار تک نہیں لگوایا۔ البتہ ٹیلی ویژن ہر گھر میں موجود ہے، لیکن ان پر ملک کے حالات و واقعات دیکھنے سے زیادہ انڈیا کے ڈرامے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر آپ چائے والے ہوٹل کی جانب رجوع کریں تو وہاں کچھ لوگ نیوز چینلز دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی کرکٹ کا دیوانہ آ جائے، تو پھر اسپورٹ چینل ہی چلتا ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں سے کچھ نوجوان مل کر ہر سال ایک کوٹلی بھاگو کرکٹ لیگ کے زیر اہتمام کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتے ہیں، جس کو میں ان جوانوں کی بڑی کام یابی تصور کرتا ہوں، کیوں کہ اس حوالے سے سماجی روابط کی سائٹس پر بڑے چست نظر آتے ہیں۔ آج تک ہماری نوجوان نسل کو ایک زمین کا ٹکرا نہیں مل سکا، جہاں وہ اپنے کھیل کے فن کو نکھار سکیں لیکن ان میں کھیل کا جذبہ اس قدر ہے کہ وہ سرکاری اسکول کی دیوار پھلانگ کر اور قبرستان کی خالی جگہ میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔

اگر بات کی جائے فاسٹ فوڈ کی تو نوجوان اپنی اس طلب کو پورا کرنے کے لیے قریبی قصبے پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ یہاں بھی ایک نوجوان نے برگر پوائنٹ کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ جس کی ہمارے گاوں کو اشد ضرورت تھی۔
اب آئیں زرا تعلیمی میدان کا جائزہ لیں، تو یہاں ایک پرائمری اسکول ہے جو گورنمنٹ کا دیا ہوا واحد تعلیمی تحفہ ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہے، لیکن پچھلے کئی سالوں سے وہی اسٹاف موجود ہے، جس سے مجھے پڑھنا نصیب ہوا۔ ابھی وہی اساتذہ موجود ہیں۔ اس اسکول کی خاص بات یہ ہے کہ ہر سال اس کی دیواروں اور دو روایتی کمروں کو نیا رنگ کر دیا جاتا ہے، دیواروں پہ نئی لکھائی کروا دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ دو نجی اسکول بھی ہیں، جن میں ایک تو دو سال پہلے کھلا، لیکن وہ اس قدر آگے نہ بڑھ سکا۔ پچھلے کئی سالوں سے بچوں کو تعلیم کے میدان میں کوشاں رہا ہے۔ اس کے پرنسپل نہایت ہی محنتی ہیں، لیکن نا تجربہ کار اسٹاف کے باعث اس معیار کی تعلیم فراہم نہیں کر پا رہے، جو ہماری نو جوان نسل کو درکار ہے۔ جو لوگ مالی اخراجات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو شہر اسکولوں میں بھیجتے ہیں، جس سے بچوں کا دن تو کم از کم مصروف گزر جاتا ہے۔ باقی مڈل کے بعد تو تعلیم کے ہر کھلاڑی کو شہر جانا پڑتا ہے۔

اس کے بعد اگر مذہبی ضروریات کی بات کی جائے تو میں اپنے گاوں والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنھوں نے مل کر اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف دو مساجد اور مدرسہ، بلکہ جنازہ گاہ بھی تعمیر کروائی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمیں عید کی نماز عید گاہ کی بجائے مسجد یا کسی جنازہ گاہ میں ادا کرنا پڑھتی ہے، مساجد ہر حوالے سے ٹھیک ہیں لیکن امام وہی ہیں جس طرح کے ہمارے مزاج کو ہضم ہو جائیں۔ نکاسی آب کے مسائل تو ہر جگہ درپیش ہیں، اب میں ان کی کہانی سنانے سے اجتناب کروں گا۔ سیاست میں تو ہم سب سے آگے ہیں، کیوں کہ الیکشن میں مجھے اپنا گاوں منی پاکستان نظر آتا ہے، جس میں آپ کو ہر پارٹی کا سر گرم کارکن ملتا ہے۔

یہ کہانی نہ صرف میرے گاوں کی ہے، بلکہ ملک پاکستان کے بیش تر دیہات انھی مسائل میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں نئے پاکستان میں نئے دیہات بھی دیکھنا چاہتا ہوں، جن میں ہر پینڈو کو مذہبی، سیاسی، ثقافتی، معاشرتی اور معاشی آگاہی حاصل ہو۔ نئے پاکستان میں نام نہاد تبدیلی کے علم برداروں اور تعلیم صحت اور روزگار کا نعرہ لگانے والوں سے التجا کرتا ہوں کہ ہم لوگ بھی اس ترقی کے حق دار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).