اپالو کے فرزند اور اساتذہ کو ہتھکڑیاں


قانون کے محافظوں نے اس حقیقت پر بھی شاید ہی غور کیا ہو کہ ہتھکڑی کی علامتی اہمیت کیا ہے، اور یہ انسانی تاریخ میں اس کی کہانی کیا ہے۔ لاطینی شاعر ورجل کے یہاں ہتھکڑی کا ابتدائی بیان ملتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس بیان کا گہرا تعلق ان اساتذہ کو ہتھکڑی پہنانے سے مماثلت رکھتا ہے۔ یونانی دیوتا پروٹیس، جسے ہومر نے ’سمندر کا بوڑھا شخص ‘ کہا ہے، اس کے پاس ماضی، حال اور مستقبل کو منکشف کرنے کی معجزاتی طاقت تھی، لیکن جیسے ہی کوئی اس کے پاس کچھ جاننے کی غرض سے جاتا، وہ اپنی صورت بدل لیتا ؛ وہ کسی بھی شے کے قالب میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

اپالو کے فرزند ارسٹیس کے پاس مکھیوں کا چھتا تھا ۔ نامعلوم بیماری کے سبب اس کی سب مکھیاں مر گئیں۔ وہ پروٹیس کے پاس پہنچا اور کسی طرح عین دوپہر کے وقت جب وہ سویا ہوا تھا، اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ ارسٹیس نے پروٹیس کو ہتھکڑی پہنائی اور اسے قالب بدلنے کے ضمن میں بے بس کردیا۔ یوں انسان کی معلوم تاریخ کی پہلی ہتھکڑی اس دیوتا کو پہنائی گئی جو ہر طرح کاعلم رکھتا تھا مگرآسانی سے اور ہر ایرے غیرے کو اس میں شریک کرنے میں متامل تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ ہر شخص جاننے کی سچی اور حقیقی آرزو نہیں رکھتا اور اسی بنا پر سب بڑے صاحب علم زیادہ خامو ش رہنا پسند کرتے ہیں۔ اساتذہ اور ادیب وفنکار پروٹیس ہی ہیں۔ انھیں اپالو کے ان فرندوں نے ہتھکڑیاں پہنائی ہیں جن کے اپنے شہد کے چھتے شاید نہیں مگر وہ ’دوسروں کے شہد کے چھتوں ‘ کے محافظ ضرور ہیں۔

انھیں شاید ہی معلوم ہو کہ ان اساتذہ میں سے اکثر قومی اور عالمی سطح پر اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز شناخت رکھتے ہیں اور جن کی خدمات پر انھیں قومی اعزازات بھی مل چکے ہیں ۔ انھیں ہتھکڑیوں کے ساتھ سامنے لانا، بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ کچھ انسانی حقوق تو محض انسان ہونے کے ناطے انسان کو حاصل ہیں، اور کچھ اس علم اور عزت کے سبب، جنھیں انسان اپنی محنت، ضبط نفس اور اپنے خاص شعبے میں مسلسل محنت سے حاصل کرتا ہے۔ اپالو کے فرندوں نے ان دونوں حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیز ہتھکڑیاں پہننا کر فاتحانہ انداز میں عدالت میں پیش کرنا ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بزرجمہروں کی کولونیل نفسیات کی غمازی بھی کرتا ہے۔

کولونیل حکمران، جن کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہی ہماری پولیس کام کرتی ہے، اپنے وفاداروں کے سوا سب کو مجرم خیال کرتے تھے، اور انھیں بیڑیاں اور ہتھکڑیا ں پہنا کر آزادی اور شہری حقوق کی بات کرنے والوں کو کھلا پیغام دیا جاتا تھا۔ دنیا کے کتنے ہی مہذب ملکوں میں ملزموں کو ہتھکڑیاں نہیں پہنائی جاتیں اور اگر پہنائی جائیں تو ان کی تصویریں شایع نہیں ہونے دی جاتیں۔ کسی بھی شخص کے ہاتھ میں بندھی لوہے کی کڑی اور اس کے ساتھ بندھی زنجیر یہ بتاتی ہے کہ ملزم انسانی درجے سے گر کر اس حیوان کے درجے کو پہنچ گیا ہے جس سے کسی بھی خطرناک فعل کی توقع کی جا سکتی ہے، ا س لیے اسے باندھا جانا ضروری ہے۔ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے کا کوئی بھی فرد، خواہ اس کا مرتبہ کچھ ہو، وہ کسی شخص کو اس کے انسانی وقار کو مجروح کرنے کا حق رکھتا ہے؟ ایک شخص، جس پر لگائے گئے الزامات کی تحقیق ہونی ہے، اور اسے اپنا دفاع کرنا ہے، اس کی عزت نفس پر حملے کو کیا ایک جرم نہیں سمجھا جانا چاہیے؟

کیا ہی بہتر ہو کہ چیف جسٹس صاحب کوئی ایسا حکم نامہ جاری فرمائیں کہ آئندہ اس ملک میں اساتذہ سمیت کسی کو بھی عدالت میں اوّل تو ہتھکڑی کے بغیر پیش کیا جائے اور اگر کسی انتہائی خطر ناک ملزم کو ہتھکڑی لگانا ضروری ہو تو اس کی شناخت کو چھپانے کا لازمی اہتمام کیا جائے۔ اگر کسی کو اس کے واقعی جرم کی قرار واقعی سزا ملتی ہے تو یہ انصاف ہے، لیکن اگر کسی پر محض الزام سے اس کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے، اسے اس کے انسانی وقار سے محروم کیا جاتاہے تو یہ انصاف کی فراہمی کے سارے عمل کو مشکوک بناتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2