کیا شاہ محمود قریشی آدھے پنڈ کے ہی چودھری رہیں گے


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی۔ سیاست میں تجربہ کار ہونے کے ساتھ سیاست کو سمجھتے بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دور کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، جمہوری ہو یا غیر جمہوری ان کا خاندان اور وہ اقتدار کا حصہ ہمشیہ رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاہ محمود قریشی۔ اقتدار تک پہنچانے والی قوتوں کے لئے ہمشیہ سے قابل قبول شخصیت رہے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ دوسری بار، وزرات خارجہ کا منصب سنبھالنے والے، شاہ محمود قریشی کے خاندان کی سیاست کا آغاز برٹش انڈیا میں انگریزوں کے دور حکومت سے شروع ہوا تھا۔ نسل در نسل چلنے والی سیاست۔ ان کے والد سے ان میں اور اب ان کے بیٹے مخدوم زین قریشی کی بطور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ تک پنہچ چکی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کو ہمشیہ سے ہی سیاست میں ایک نہ ایک ایسی شخصیت کا سامنا ضرور رہا ہے جس سے ان کا تعصب بھی ہو اور مسابقت بھی۔ 2008ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد وزارت اعظمی کے لئے ان کا نام سامنے آیا۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین آصف علی زرداری نے۔ وزرات اعظمی ملتان ہی سے تعلق رکھنے والی ایک اور اہم سیاسی شخصیت سید یوسف رضا گیلانی کو سونپی۔ شاہ محمود قریشی کے لئے یہ کسی جھٹکے سے کم نہ تھا تاہم وزرات خارجہ کا قلمدان بھی خاصا اہم تھا جس پر انہیں مجبورا راضی ہونا پڑا۔

شاہ محمود قریشی تقریبا ساڑھے 3 سال بطور وزیر خارجہ وفاقی کابینہ کا حصہ رہے۔ تاہم امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر انہیں پارٹی قیادت کی جانب سے کہا گیا کہ وہ خارجی امور کی وزارت سے مستعفی ہوں اور کوئی نئی وزارت سنبھالیں۔ یہ بات ان کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ وہ پہلے ہی وزرات عظمی کے عہدے پر اپنے جذبات کی قربانی دے چکے تھے لہذا اس بار انہوں نے اپنی وزرات اور پارٹی رکنیت سے استعفی دینا مناسب سمجھا۔

دور اندیشی کہیے یا کوئی ہدایت نامہ، انہوں نے 2011ء کے آخری ماہ میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت ابھارا جا رہا تھا۔ شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کا حصہ بنے ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ملتان کی ایک اور قد آور سیاسی شخیصت جاوید ہاشمی بھی پاکستان مسلم لیگ نواز سے الگ ہو کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ اب ملتان سے ہی شاہ محمود قریشی پارٹی کے وائس چئیرمین تھے اور جاوید ہاشمی پارٹی کے صدر۔ 4 سال سے کم عرصہ تک شاہ محمود قریشی کو پارٹی میں جاوید ہاشمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل 1985ء سے 1993ء تک وہ جاوید ہاشمی کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ نواز میں ایک ساتھ رہے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ دونوں کے انداز سیاست میں دائیں اور بائیں کا واضح فرق نظر آتا ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں جاوید ہاشمی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے 2 حلقوں این اے 48 اور 149 سے کامیاب ہوئے۔ تاہم 2014ء میں عمران خان کے طویل دھرنے کی ابتداء میں ہی پارلیمنٹ حملہ پر جاوید ہاشمی کا عمران خان کے ساتھ ہونے والا اختلاف ان کے پارٹی چھوڑنے پر ختم ہوا۔

جاوید ہاشمی نے اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دیا تو ضمنی انتخاب میں آزاد حیثییت سے الیکشن لڑے۔ شاہ محمود قریشی نے جاوید ہاشمی کی مخالفت میں پیپلز پارٹی سے وابستگی رکھنے والے آزاد امیدوار ملک عامر ڈوگر کو اسپورٹ کیا۔ ملک عامر ڈوگر نے اکتوبر 2014ء کا انتخاب بطور آزاد امیدوار لڑا۔ تاہم انہوں نے تب تک پیپلز پارٹی کو باقاعدہ چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اپنی کامیابی کے بعد۔ ملک عامر ڈوگر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ 2014ء سے 2018ء کے انتخابات کے دوران۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف سیکرٹری جنرل اور سابقہ سیکرٹری جنرل۔ جہانگیر ترین کے ساتھ نمٹتے نظر آئے۔ گو کے عام انتخابات سے 7 ماہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان جہانگیر ترین کو نا اہل کر چکی تھی جس کے بعد وہ اپنے پارٹی عہدے کو بھی چھوڑے چکے تھے تاہم ان کا عہدہ آج بھی کاغذات میں نہ سہی پارٹی میں پہلے کی طرح برقرار ہے۔

جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان جاری جنگ اس وقت واضح نظر آئی جب 2018ء کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ نظر آیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں شاہ محمود قریشی نے اپنے من پسند افراد کو نوازا جبکہ جہانگیر ترین کے تجویز کردہ ناموں کو نظر انداز کیا گیا۔ ایک عام تاثر ہے کہ جہانگیر ترین پارٹی کے اور عمران خان کے اخراجات برداشت کرتے ہیں لہذا وہ پارٹی میں اپنا حصہ زیادہ چاہتے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی پیسے خرچ کیے بغیر ہی اپنی اہمیت بنانا جانتے ہیں۔ دوسری جانب 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ سے نا اہلی کے باوجود عہدے اور وزارتیں تقسیم کرنے میں جو جوڑ توڑ کیا وہاں شاہ محمود قریشی۔ کو واضح طور یہ محسوس ہوا کہ ان کی پارٹی میں شہریت درجہ دوم کی ہے۔ جس کے اثرات ان کے چہرے کے تاثرات پر واضح نظر آئے۔

شاہ محمود قریشی کو صرف خارجی امور اور سیاست میں ہی نہیں بلکہ اپنے ہی گھر میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ حضرت بہاؤ الدین ذکریا رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شاہ رکن الدین عالم کی درگاہوں کے سجادہ نشین ہونے کے ناتے ان کے بڑے بھائی مرید حسین قریشی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ درگاہوں کی سجادہ نشینی ہمشیہ والد کے بعد بڑے بیٹے کو ملتی ہے لیکن شاہ محمود قریشی نے چالاکی سے درگاہوں کی گدی ان سے چھین لی۔

سالانہ عرس کی تقریبات میں دونوں بھائیوں کے درمیان اختلافات ملک بھر سے آئے ان کے عقیدت مند اور زائرین کھلے عام سال میں 2 بار دیکھتے ہیں۔ آج کل شاہ محمود قریشی کو اپنے ہی چند ماہ قبل کے قریبی ساتھی اور نوجوان ایم پی اے شیخ سلمان نعیم کا سامنا ہے۔ دراصل 25 سالہ سلمان نعیم نے شاہ محمود قریشی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ حالانکہ 2018ء کے عام انتخابات میں ہمارے وزیر خارجہ قومی اور صوبائی حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے لیکن انہوں نے اپنی پوری انتخابی مہم میں جو تقاریر کیں اور آئندہ منصوبہ بندی کا اعلان کیا وہ بطور وزیراعلی پنجاب تھا لیکن ملتان کے صوبائی حلقہ 217 آزاد امیدوار سلمان نعیم نے انہیں شکست دے دی۔

سچ تو یہ ہے کہ 1988ء سے اب تک صوبائی وزیر پلاننگ انیڈ ڈوپلیمنٹ، صوبائی وزیر خزانہ، وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور، ضلع ناظم ملتان اور خارجی امور کی وزرات رکھنے کے بعد اب بس شاہ محمود قریشی کو نئے پاکستان میں کچھ نیا کرنے کے لئے وزارت اعلی چاہیے تھی جو ان کی 33 سالہ سیاسی تجربے کی عمر سے کم عمر نوجوان نے ان کے پاس نہ جانے دی۔ مجبوراً شاہ صاحب نے ایک بار پھر وزارت خارجہ قبول تو کر لی لیکن سلمان نعیم کی عمر ابھی الیکشن لڑنے کی نہیں اس پر نا اہلی کی درخواست بھی الیکشن کمیشن کو دے دی۔ جس پر یکم اکتوبر کو سلمان نعیم کو الیکشن کمیشن نے نا اہل کر دیا جبکہ 12 روز بعد لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ نے سلمان نعیم کی رکنیت ایک بار پھر بحال کر دی۔

ایم پی اے سلمان نعیم کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے میرے خلاف انتقامی کارروائیوں پر وزیراعظم عمران خان کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نوجوانوں کا راستہ روک رہے ہیں۔ حالانکہ شاہ محمود قریشی کو الیکشن سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ اگر وزیر اعلی بننا ہے تو کسی اور صوبائی حلقہ سے الیکشن لڑیں۔ پہلی بار الیکشن لڑ کر ایم پی اے بننے والے سلمان نعیم نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاہ محمود قریشی ان کو نا اہل کروانے لے لئے سپریم کورٹ بھی جا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سلمان نعیم کی صوبائی اسمبلی کی رکنیت رہے نہ رہے، شاہ محمود قریشی صاحب پورے پنڈ کے چودھری کب بنیں گے۔

میمونہ سعید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

میمونہ سعید

میمونہ سعید جیو نیوز سے وابستہ ہیں۔ وہ ملتان میں صحافت کے فرائص سرانجام دیتی ہیں ۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف اوکلوہوما کی فیلو بھی رہ چکی ہیں ۔

maimoona-saeed has 9 posts and counting.See all posts by maimoona-saeed