ڈونکی کنگ نہیں دیکھی تو کچھ نہیں دیکھا 


کل شام بچوں کے ساتھ ڈونکی راجا دیکھی، رات میں اس فلم سے متعلق خواب آتے رہے اور صبح ناشتے کے فورا بعد یہ تحریر لکھنے بیٹھ گیا۔ ڈائریکٹر صاحب، پہلےمیرا اور بچوں کا بعض نکتوں پر احتجاج نوٹ کر لیجیے۔ لومڑی اور دیگر جانوروں کے دانت بے حد نوکیلے اور خوفزدہ کردینے والے تھے، گانوں کے دوران دانتوں کی بار بار نمائش کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں تھی اس کی جگہ اگر فیشل امپریشنز پر کچھ اضافی کام ہوجاتا جیسا کہ بھینسے کی منگو سے لڑائی والے سین میں نظر آیا تو خوف کا عنصر کم ہوجاتا۔

دوسرا یہ کہ کہانی میں اکثر مکالمے 12 سال سے کم عمر بچوں کی سمجھ سے بالاتر تھےجنھیں آسان اور دلچسپ مثالوں کے ساتھ پیش کر کے وہی مطلب حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ٹی وی اینکر کے طور پر ظاہر ہونے والے بندر کے کردار میں تشنگی رہ گئی، اس کے گیٹ اپ میں جان کم تھی حالانکہ مکالمے بھی زیادہ تھے اور اسکرین ٹائم بھی لیکن جو محنت اور ڈیٹیلنگ شیر بادشاہ اور منگو کی اینی میشن میں کی گئی وہ اینکر بندر کی طرح باقی کرداروں کا بھی حق تھا، اسی طرح سرکس ماسٹر کا کردار میری نظر میں ضرورت سے زیادہ خوفناک اور پرتجسس بنایا گیا جس سے بچوں میں بلاوجہ خوف پیدا ہوا، اس کا ایک مرتبہ اظہار میری چھ سالہ بیٹی نے سین کے دوران سینما سے باہر نکلنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کیا۔

خیر یہ تو ہوئے گلے شکوے۔ اب آجائیں حق بات کی طرف۔ بھئی واہ، یقین کیجئے مزا آگیا، اینی میشن فلمیں میری گھٹی میں ہیں، پولر ایکسپریس سے فائنل فینٹیسی اور کیسپر سے لے کر شریگ اور کنگفو پانڈا۔ ہر دور کی اینی میٹڈ فلم اگر دیکھ نہیں پایا تو کم از کم اس پر نظر ضرور رکھی ہے۔ یقین کیجئے فلم شروع ہونے کے 20 منٹ بعد مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ پاکستانی پروڈکشن ہے۔ جس طرح اسماعیل تارا، افضل خان اور عرفان کھوسٹ کی آوازوں کو استعمال کیا گیا یہ ففٹی ففٹی، گیسٹ ہاوس اور اندھیرا اجالا کے بعد ان تینوں کے ٹیلنٹ کا شاید سب سے صحیح استعمال تھا۔

اسی طرح حنا دلپذیر نے ایک مرتبہ پھر ملٹائی ٹیلنڈڈ فنکارہ ہونے کا ثبوت دے دیا۔ یہاں یہ تاثر بھی غلط ثابت ہوگیا کہ سینئیر فنکار نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ فلمی تجربات سے کتراتےہیں۔ جاوید شیخ اور غلام محی الدین صاحب اس فلم کے ذریعے یہ بتا گئے ہیں کہ جناب بھوت ناتھ یا ”پا“ بنا لیجیے، یہاں بھی امیتابھ بچن کے ہم عمر اور ہم تجربہ صحیح معنوں میں فنکاری کرنے والے آپ کو چونکا دینے کے لئے بیٹھے ہیں۔

اس فلم کو دیکھنے کے بعد میری شدید خواہش ہے کہ اب قوی صاحب، طلعت حسین، توقیر ناصر اور بشری انصاری جیسے غیر معمولی صدا کاروں کو استعمال کرتےہوئے کئی اور اینیمٹڈ فلموں پر کام کم از کم شروع ضرور کر دیا جائے۔ کہانی اور مکالموں میں بتدریج بہتری کے ساتھ ساتھ اس طرح کی لگاتار فلمیں آگے چل کر لاگت بھی یقیناً کم کر دیں گی۔ باقی رہی بات اینی میشن فلموں میں لوگوں کی دلچسپی کی، تو اس کا اندازہ مجھے کل سینما کے باہر رش اور لوگوں کے جوش و خروش سے ہوگیا۔

تو جناب میرے خیال میں تو بسم اللہ کریں، اسے اچھی شروع سمجھیں کیونکہ اچھا کہنا اور ماننا ڈونکی کنگ کا حق ہے۔ کئی گھنٹے بعد بھی میری بیٹیاں فلم کے کرداروں میں ڈوبی ہوئی ہیں جب کہ سینما میں تو کچھ موقعوں کے علاوہ آنکھیں جھپکانا ہی بھول گئی تھیں۔ اور ہاں ایک بات اور۔ دونوں نے وعدہ کیا ہے کہ اب گدھے کو کسی صورت کم تر تصور نہیں کریں گی، کم تر صرف وہ ہے جو کام سے جی چرائے۔ اچھی اور یادگار انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ یہ سبق انہیں دینے کےلئے میں ڈونکی کنگ سے وابستہ ہر اُس فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے اس فلم پر کام کرتے ہوئے یقیناً اپنی درجنوں نیندیں قربان کی ہوں گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).