کیا جنسی ہراسانی کی تعریف ہر جگہ ایک سی ہے؟
”وہاں تو بھائی کو بہن کی ’ڈیٹس‘ بھی معلوم ہوتی ہیں، کہ کب ہیں، کب نہیں‘‘۔
یہ خبر دینے والے ہمارے دوست، انگلستان سے پڑھ کے لوٹے تھے، اور ہم نوجوانوں کو وہاں کی دستور بتا رہے تھے۔
”وہاں بھائی کے سامنے اُس کے بہن سے پوچھا جائے۔ ’وِل یو میری می‘، تو بھائی، اپنی بہن کی طرف دیکھے گا، کِہ اُس کا جواب کیا ہے۔ اگر بہن کَہ دے، ’یس‘، تو بھائی پوچھنے والے سے غرض نہ رکھے گا۔ اگر بہن کَہ دے، ’نو‘، سوال پوچھنے والا لوٹ جائے، تو بھی قصہ ختم سمجھیے؛ اگر ”نو‘‘ کہنے کے بعد پرپوز کرنے والا ’ہاں‘ کہلوانے پہ اصرار کرے، تو بھائی مداخلت کرے گا، کِہ جب اس نے ’نو‘ کَہ دیا، تو اصرار کی وجہ نہیں‘‘۔
”استغفر اللہ! ایسے ننگے پھنگے لوگ‘‘۔ جواب میں ہم یہی کَہ سکتے تھے، کَہ دِیا۔
یہاں یہ بحث نہیں ہے، کِہ انگلستان کے رِیتی رواج اچھے ہیں یا برے؛ یورپ اور امریکا میں ایسا ہے، ہمارے یہاں ایسا نہیں، تو ہم اچھے یا وہ برے ہیں۔ یہ سطور لکھنے کا خیال یوں آیا، کِہ گزشتہ دِنوں ایک دوست سے کہا۔
”ہمارے یہاں اور یورپ میں ’جنسی ہراسانی‘ کے الگ مفہوم ہیں‘‘۔
اس پر اُنھوں نے اختلاف نما حیرانی کا اظہار کیا۔ اب اوپر بیان کیا واقعہ ہی دیکھ لیں، یہی واقعہ یہاں ہمارے معاشرے میں رُونما ہو، تو بھائی کے سامنے، بہن سے ایسا سوال کرنے والے کو موت کے گھاٹ نہ اُتارا جا سکے تو ایسے شخص کی پٹائی تو کر کے رہیں گے۔ بہت سے اسے ’جنسی ہراسانی‘ ہی کہیں گے۔ ہمارے یہاں ایسا ردِ عمل ہمارے رسوم و رواج کے مرہون منت ہے۔
کسی بھی تحریک کا بیج مقامی ہوتا ہے۔ اس پودے کی جڑیں اُس سماج میں ہوتی ہیں۔ تحریکیں رواج و رسوم کی ہوا؛ شعور کے آب سے سیراب ہوتی ہیں۔ غور کیجیے، عرب سے اٹھنے والی تحریک ہو، یا یورپ سے درآمد کی گئی تحاریک؛ اس میں سے اتنا رکھ لیا جاتا ہے، جتنے کی اس سماج میں سکت ہوتی ہے، یا گنجایش ہوتی ہے؛ باقی رد ہو جاتا ہے۔ اس بات کو نہ سمجھنے والے چاہے عرب کے مداح ہوں یا یورپ کے، وہ باقی رسوم کو لے کر کے مخالف نقطہ نظر کے حامی کو نیچا دکھانے میں لگے رہتے ہیں۔
ہالی وُڈ میں ’می ٹو‘ کی لہر کیا اُٹھی، دیکھا دیکھی ہمارے یہاں بھی ایسے الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہاں ایسی تحریک کا اُٹھنا، اور اسے اپنے پیمانے پر پرکھنا، یہاں تھوڑا تضاد دکھائی دیتا ہے۔ پہلے یہ اقرار کرتا چلوں کہ میری نظر میں ’ہراسانی‘، ’جنسی ہراسانی‘ کی حمایت کا کوئی مطلب نہیں؛ شخصی آزادی پہ پہرے لگانے کی حمایت ممکن نہیں۔ لیکن اس کے بعد یہ سمجھنے کی ضرورت ہے، کہ ’جنسی ہراسانی‘ ہے کیا؟ کیا کسی سے یہ سوال کرنا، ”تم میری دوست بنو گی/ گا‘‘؟ یہ سوال ہراساں کرنے والا ہے؟ پاک و ہند کے سماج میں یہ سوال ’جنسی ہراسانی‘ ہی کہلائے گا۔ اب کوئی لاکھ کہتا رہے، کسی سے ایسا سوال کرنا نا مناسب نہیں، تو اس کا دعوا تسلیم نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ ’مناسب‘ اور ’نا مناسب‘ کی تعریف بھی سماجی ہیں۔ کیا اُن ممالک میں بھی یہی سوال ’جنسی ہراسانی‘ کی تعریف پہ پورا اُترتا ہے، جہاں سے ’می ٹو‘ کی تحریک کا آغاز ہوا؟ اس سوال کا جواب آپ خود تلاش کیجیے۔
ایک سوال تو یہ ہے کہ ’می ٹو‘ کا نعرہ شو بز انڈسٹری ہی سے کیوں سنائی دے رہا ہے؟ ہالی وُڈ سے ہوتا، بالی وُڈ تک کا سفر اور کچھ عرصہ قبل میشا شفیع کا گلوگار علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانا، ہمارے یہاں زبان زدِ عام ہوا۔ سامنے کی بات ہے، کہ شو بِز انڈسٹری کے افراد عوام میں مقبول ہوتے ہیں یا انھیں زیادہ لوگ جانتے ہیں، اس لیے جب وہاں سے ایسی کوئی خبر آئے تو غوغا بھی نشریاتی اداروں کے حسبِ دل خواہ ہوتا ہے۔ ایسی خبریں معمول سے زیادہ توجہ حاصل کرتی ہیں، نشریاتی اداروں کی ’چاندی‘ ہو جاتی ہے۔
نشریاتی اداروں کی ’چاندی‘ سے کسی کو کیا غرض، سوال حق و باطل کا ہے۔ کیا اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے محض کسی بھی الزام لگا دینا بھی بہت ہے؟ دیکھا گیا ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کے الزام ہی کو ثبوت ماننے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ دلیل دی جاتی ہے، کہ الزام لگانے والی کیوں کر جھوٹ بولے گی؟ یہ ’دلیل‘ قطعاً دلیل نہیں ہے۔ یہاں میں ایک دانا کا قول نقل کروں گا؛ جس کے خیال ہے کسی بے گناہ کو سزا دینا معاشرے میں خرابی کی بڑی وجہ ہے۔ ”ایک بے گناہ کو سزا دینے سے کہیں بہ تر ہے، کئی گنہ گاروں کو آزاد کر دیا جائے‘‘۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے، کِہ ہمارے یہاں ’کنجر‘ جیسے تضحیک آمیز لفظ کے حامل فن کاروں کی طرف سے ساتھی فن کاروں پر لگائے گئے الزام کی تاثیر وہ نہیں ہوتی، جو کہ ان ممالک کے عوام میں، جہاں سے ’می ٹو‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ ہمارے یہاں عوام کو یہ سمجھانا مشکل ہے، کِہ کم ترین کپڑوں میں اسکرین پر نمودار ہونے والی اداکارہ کی ’نو‘ کا بھی کوئی مطلب ہوتا ہے۔ عوام کو تو رہنے دیجیے، یہی احوال خواص کا ہے کہ انھیں یہ سمجھانا نا ممکن ہوا جاتا ہے، ایک ہدایت کار کسی اداکارہ کو یہ اطلاع دے، کِہ تمھارا بدن ایسا نہیں ہے، کِہ فلم بین تم پہ مر مر جائیں، اپنی بدن کی پلاسٹک سرجری کروا کے یہ یہ تبدیلیاں لے آو، ایسا کہنا جنسی ہراسانی نہیں؛ ہاں اس بات کا نا مناسب الفاظ میں اظہار، تضحیک ضرور ہے۔ شو بِز میں ’جنسی ہراسانی‘ کے بہت سے الزامات کی حقیقت، کیا اتنی سی تو نہیں، کِہ جسے موقع نہیں ملا، آگے نہیں بڑھ سکی، اُس نے کسی کو مورد الزام ٹھیرا کے اپنا غصہ نکالا ہو؟ سستی شہرت چاہی ہو؟ لیکن یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے؛ سوال ہی ہے۔
- آئی ایم ایف، عید قربان اور قوم کی کھال - 01/07/2023
- فلم اور ٹی وی کے لیے لکھتے ہوئے کیا خیال رکھنا ہے - 20/06/2023
- فلم میکنگ شارٹ کورس - 30/04/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).