وزیر کے گھر کی بچیاں سرکاری سکول میں


سرکاری اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کے دعوے ہر دور میں کیے گئے لیکن عملی کام کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہر سال جب بھی میٹرک کا رزلٹ کسی بھی بورڈ کا ہو اس میں نمایاں پوزیشنز ہمیشہ پرائیویٹ اسکولوں کی ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کے معیارِ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی حالت زار پر تقریباً ہر کسی نے لکھا ہوگا، تعلیم کی برابری کی بھی سب بات کرتے ہیں لیکن عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔

اگر دیکھا جائے تو سرکاری اسکولوں کی عمارتیں اتنی وسیع اور ایک اچھے طریقے کی بنی ہوتی ہیں، ان میں کھیلنے کے گراؤنڈ بھی ہوتے ہیں اور دیکھنے میں یہ بڑی پرشکوہ عمارات بہت خوبصورت لگتی ہیں لیکن ان میں کہیں جانور باندھے جارہے ہیں کہیں بھینسوں کے باڑے اور کہیں اسٹور بنے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھنے بھیجنے سے گھبراتے ہیں کہ جانے کیسی پڑھائی ہو، اساتذہ مار مار کر پڑھائیں گے۔ سرکاری اسکولوں کا یہ حال پندرہ بیس سالوں سے ہوا ہے ورنہ اج سے بیس، تیس سال پہلے تک سرکاری اسکول بہترین اسکول تھے وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہوتیں تھیں۔ انہی اسکولوں سے پڑھ کر بچے بڑے بڑے بڑے عہدوں پر پہنچتے تھے۔ ہمارے ساتھ کے لوگ اور ہم خود سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں اور سب اپنے شعبوں میں ماہر ہیں، یہ ان اسکولوں کا ہی ثمر ہے۔

تعلیم کب تجارت بنی پتہ ہی نہیں چلا اور پرائیویٹ اسکولوں کا دور دورہ ہو گیا۔ لوگوں کو ایک بزنس ہاتھ آگیا اور آہستہ آہستہ ایک ٹرینڈ چل نکلا کہ پرائیویٹ اسکول ہی اچھے ہیں اور بچوں کو ان میں ہی پڑھانا ہے اس طرح دھیرے دھیرے سرکاری اسکول نظر انداز ہوتے ہوتے تباہی سے دوچار ہونے لگے۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے ہی سرکاری اسکولوں کو اس حال پر پہنچایا اب ہمیں ہی ان کا معیار تعلیم بڑھانا ہے ایک سے بڑھ کر ایک مشورے دیے جارہے ہیں لیکن ایک قابل فخر کارنامہ صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے انجام دے کر تاریخ رقم کردی۔

بزرگ کہتے ہیں اچھے کام کی شروعات اپنے گھر سے کرو اور اس کہاوت کا عملی مظاہرہ ہمارے وزیر صاحب نے کیا یعنی انھوں نے اپنی بیٹی کیف الوریٰ اور دو بھتیجیوں علیزہ اور عمیزہ کو حیدرآباد سندھ کے سرکاری اسکول میراں گرلز ہائی اسکول میں داخل کروا دیا۔ داخلے کے لیے وزیر تعلیم خود اسکول پہنچے اور پرنسپل کے دفتر میں ایک عام شہری کی طرح تینوں بچیوں کا فارم پر کر کے جمع کروایا۔ انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو وعدہ میں نے اسمبلی کے فلور پر کیا وہ آج پورا کردیا کہ میرے گھر کے بچے بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں عام شہریوں کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گے۔

یہ سچ بھی ہے مثبت تبدیلی صرف نعروں سے نہیں بلکہ عملی سے آتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتمادف بحال کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے جو وزیر تعلیم سندھ نے اٹھایا ہے جو قابل تقلید اور قابل تعریف ہے۔ شروعات سندھ میں ہوئی ہے اب سرکاری تعلیمی اداروں کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا، یہ ایک لائق تحسین قدم ہے۔

اسی طرح لڑکوں کے تعلیمی اداروں پر بھی نظر کرم کی جائے تاکہ تعلیم کا معیار بڑھے اور سرکاری اسکولوں کی عزت بھی۔ آہستہ آہستہ نصاب تعلیم بھی یکساں کرنے کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ملک مین دو رنگی تعلیم کا رجحان ختم ہو اورسب اسکولوں کا معیار ایک سا ہو، غریب امیر کی تفریق نہ ہو۔ سوچیں جب ایک وزیر کی بیٹی اور بھتیجیاں اس اسکول میں پڑھیں گی تو ٹیچرز تو تعلیم پر توجہ دیں گے ہی ساتھ ساتھ اسکول کے نظم وضبط اور بچوں کی صحت و صفائی پر بھی نظر رکھی جائے گی، پرنسپل کو بھی احساس رہے گا کہ وزیر تعلیم اسکول کی طرف آنکلیں اس لیے خودبخود سب ٹھیک ہوتا چلا جائے گا یہ ایک طرح سے شروعات ہے اور ان شاء اللہ وہ دن بھی دورنہیں جب سرکاری اسکول بھی نمایاں پوزیشن لیں گے۔ کیے گئے لیکن عملی کام کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہر سال جب بھی میٹرک کا رزلٹ کسی بھی بورڈ کا ہو اس میں نمایاں پوزیشنز ہمیشہ پرائیویٹ اسکولوں کی ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کے معیارِ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی حالت زار پر تقریباً ہر کسی نے لکھا ہوگا، تعلیم کی برابری کی بھی سب بات کرتے ہیں لیکن عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).