میرا آخری اردو مضمون


یہ میرا اردو زبان میں آخری مضمون ہے۔ آخری اس لیے کیونکہ اب میں اس زبان میں کچھ بھی لکھنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتا ہوں۔ میری آنکھ جن کتابوں کے درمیان کھلی تھی وہ زیادہ تر اردو کی تھیں۔ میں نے جس سکول میں داخلہ لیا وہ اردو کا تھا اور جن لوگوں سے ابتدا میں ملنا جلنا رہا وہ اردو بولنے والے معاشرے کا حصہ تھے۔ اس لیے یہ زبان میرے لہو میں ایسی رچ بس گئی کہ مجھے اس سے بہتر اپنے اظہار کا وسیلہ اور کوئی نہ مل سکا۔ مگر میں اب اردو شاعری اور ادب دونوں سے قریب قریب اکتا چکا ہوں۔ (فکشن کی بات الگ ہے کہ وہ کسی بھی زبان کا ہو، اس کا میرا ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک رہے گا)۔ آپ اس مضمون کو میرا خودکشی نامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں اسباب پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ اتنے لجلجے اور گندے ہیں کہ اب ان کی طرف دیکھنے سے بھی مجھے گھن آتی ہے۔ ہاں مگر کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اردو زبان اور اس کے بولنے والوں کا ایک تنگ دائرہ روزی روٹی کی عجیب سی ہوڑ میں پھنسا ہوا ہے۔ میں نے بارہا یہ بات کہی ہے اور اپنے اس آخری مضمون میں ہندوستان میں رہنے والے اردو داں افراد سے بھی یہی بات کہوں گا کہ انہیں اپنے بچوں کو اس زبان سے نابلد ہی رکھنا چاہیے۔

کلدیپ نیر نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ حسرت موہانی نے انہیں تقسیم کے فورا بعد یہی مشورہ دیا تھا کہ اردو میں نہ لکھو۔ ہندوستان میں اردو لکھنے والے کسی جمعہ اخبار میں شائع ہونے والے ضمیمہ کے پھٹے حال مضمون نگارسے زیادہ اور کچھ نہیں بن سکتے اور ان کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ یہ خالد جاوید، صدیق عالم اور ذکیہ مشہدی کو بار بار پیدا کرسکیں۔ بار بار تو چھوڑیے۔ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر آپ مجھے بیس سے تیس سال کی عمر میں ہندوستان کا کوئی ایسا اہم نام بتا دیں جو تخلیقی نثر پر دسترس رکھتا ہو تو میں ردی کے بھائو آپ کے ہاتھوں بکنے کو تیار ہو جائوں گا۔ یونیورسٹیاں اور ان میں موجود اردو کے شعبوں کو دیکھ کر تو مجھے الٹی آتی ہے۔ وہاں مدرسوں سے نکلنے والے قیٹ دماغ لوگ ٹھسے سے کرسیوں پر بیٹھے ہیں، وہ جن امتحانوں کو پاس کرکے یہاں تک پہنچتے ہیں ، ان کی کوئی تک ہی نہیں ہے۔ یہ بے دماغ لوگ پروفیسر ہیں اور پروفیسر ہی ہوسکتے ہیں، جو کسی دوسری زبان میں لفظوں کے صحیح تلفظ تک سے واقف نہیں ہوتے۔

میں نے جب ریختہ چھوڑا تھا تو سوال کیا تھا کہ آخر اردو بولنے والوں کی تنخواہ انگریزی بولنے والوں کی تنخواہ سے آدھی سے بھی کم کیونکر ہوتی ہے۔ مگر وہ احتجاج بے وقوفی پر مبنی تھا، اردو والے اسی لائق ہیں۔ ان کے یہاں علم کی تلاش، زیرکی اور دوسری زبانوں کے ادب سے واقف ہونے کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرا یقین نہ ہو تو کبھی کسی ادبی قسم کے ‘سیمینار’ یا ‘سمپوزیم’ میں تشریف لے جائیے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ ہر زبان اور اس کے بولنے والے کسی نہ کسی طور پرایسے لوگوں کو ضرورdeserveکرتے ہیں جن سے دنیا میں ان کی بہترین نمائندگی ہو۔ مگر اردو اس معاملے میں بھی قلیل دماغ لوگوں کی محتاج ہے جو عالمی اردو کانفرنس یا قطر، دبئی، لندن یا امریکہ میں ہونے والے مشاعروں کے آگے زبان نکالے گھومتے ہیں۔ اردو کا کوئی بھی ادیب ، ادب کو لے کر اتنا کمیٹڈ ہے ہی نہیں کہ اس کے لیے کسی قسم کی قربانی دے سکے۔ یہ اخباروں کا ادب لکھنے والے لوگ ہیں جو اتفاق سے رسالوں میں چھپنے لگے ہیں۔

اردو اب ان لوگوں کی زبان ہے جو ظاہری طور پر اپنے سفید کالروں پر لکھی گئی عبارت دنیا کو دکھاتے پھرتے ہیں اور اسی سفید کالر کے ساتھ دوسروں کی ذات (حتیٰ کہ مردہ افراد)پرکیچڑ اچھالنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے مسلکوں اور اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کرنے والے لوگوں کی زبان ہے۔ یہ ان لوگوں کی زبان ہے، جو لڑکیوں کو تنہائی میں ننگے، فحش اور گھٹیا پیغامات بھیجنے سے نہیں چوکتے، انہیں اپنے دل کے سطحی جذبات کچی پکی نظموں اور غزلوں کے لفافے میں قید کرکے بھیجتے ہیں اور مجھ جیسے لوگوں کی عریانیت پسندی پر کھلے دل سے معترض ہوتے ہیں اور مجھے توبہ کی طرف راغب کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔

کسی مشہور ہالی ووڈ فلم میں ایک کمال کا جملہ سنا تھا۔ ‘آپ کبھی کسی شخص کو نہیں جان سکتے، جب تک اس سے آپ کی لڑائی نہ ہوئی ہو۔ ‘اس بات کی صداقت ایسے ظاہر ہوئی کہ میں نے جب بھی کسی شخص سے اپنی مرضی سے فاصلہ بنایا (لڑائی تو خیر مجھ سے ممکن نہیں) اس نے گندی اور گھنونی سازشوں کا ایک ڈھیر لگا دیا۔ میں نے یہاں یہ بھی کرشمے دیکھے کہ ایک دوسرے کو پیٹھ پیچھے نہایت غلیظ زبان میں برا بھلا بکنے والے لوگ، کیسے ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کو ‘بھائی جان!’ ، ‘حضور والا’ اور ‘سرکارورکار’ کہہ کر مخاطب کرتے نظر آئے۔ یہ کہانیاں لکھنے والے، شاعری کرنے والے اور عالمی ادب کی بن دیکھی واہ واہ کرنے والے اصل میں اندر سے اتنے خالی ہیں کہ ان کے اندر تو ادب کی ہلکی سی گرم ہوا تک کا گزر نہیں، بس پیدائش سے اب تک ایک قسم کا ہرا پانی ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ سڑتا جا رہا ہے۔

ذکر اگر شاعری کا ہوتو سوچ کر دیکھیے کہ اس زبان میں کس قسم کی شاعری ہو رہی ہے۔ یہاں لوگ غزل کہتے ہیں، اس کی بنیاد پر اپنی پہچان بناتے ہیں۔ ٹچے اور چھچھورے قسم کے غزل گو شعرا کو جانے بھی دیجیے اور بڑے ‘ادیبوں ‘ کو ہی دیکھیے تب بھی محسوس ہوتا ہے کہ ایک جامد قاموس سے نکلنے والی متواتر ایک ہی قسم کی لفظیات اور مضامین والی غزلیں ان لوگوں کی نہیں بلکہ ان کی نسلوں کی شناخت بن چکی ہیں۔ یہ شاعری کے نام پر صدیوں سے لوگوں کو وہ بنا رہے ہیں، جو سڑک پر بنتے ہوئے انہی کو شرم آئے گی۔ پھر ایسی شاعری کوئی کیوں اور کہاں تک پڑھے، جو اپنی طوالت میں شیطان کی آنت ہو اور اپنے تقدس میں خدا کا کلمہ۔ بس اندھےبوروں کی طرح اس پر سر دھنتے رہیے تو ٹھیک وگرنہ سب بے کار۔

میری عمر بتیس سال ہے اور بتیس سال کی عمر تک اس بات کا اندازہ ہو جانا اتنا بھی برا نہیں کہ اردو ادب، زیادہ تر شاعری سے عبارت ہے اور شاعری زیادہ تر بے وقوفی سے۔ میں لوگوں کو اردو نہ پڑھنے کی تلقین کروں گا اور یہ بھی کہوں گا کہ وہ اگر اب اردو کا بھلا (کم از کم ہندوستان میں) چاہتے ہیں تودیوناگری رسم الخط کو زیادہ سے زیادہ عام کریں اور اسی میں لکھا اور پڑھا کریں۔ تنو مند گوشت خور داڑھی والے ملائوں کو لات مار کر ایک دفعہ عقل سے کام لیجیے تو معلوم ہوگا کہ دیوناگری میں لکھنے سے آئندہ نسلوں کی دال روٹی کا بہتر انتظام ہوسکتا ہے۔ بتیس سال کی عمر اس لحاظ سے بھی اتنی بری نہیں کہ انسان کسی دوسری زبان کی طرف دھیرے دھیرے ہی سہی ، بڑھا جائے۔ وقت لگ سکتا ہے، خموشی کی بساط زیادہ لمبی اور توقف کی کھائی زیادہ گہری ہوسکتی ہے،مگر اب میں جس زبان کے قالب میں نظر آئوں گا وہ معاشی طور پر اتنی پست اور ذہنی طور پر اتنی پسماندہ نہیں ہوگی۔

ادبی دنیا یوٹیوب چینل پر کہانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مگر اگلے سال تک کچھ لوگوں کے لیے ہوئے پراجیکٹس مکمل کرنے کے بعد ممکن ہے کہ وہ بھی بند ہوجائے۔ میں ادب کی دنیا سے ایک قاری کی حد تک شاید ہی کبھی غائب ہوسکوں مگر اب فلسفیانہ قسم کی ادبی تحریریں اور عاشقانہ قسم کی مجنونانہ شاعری رات کو اکثر ایک برے خواب کی طرح میری دیوار پر وحشت آمیز رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ان سے چھٹکارا حاصل نہ کیا تو میری ذہنی حالت کے نہایت بگڑ جانے کا اندیشہ ہے اور میں ایک ذمہ دار گھریلو شخص کے طور پر یہ خطرہ مول لینے کے حق میں نہیں ہوں۔

مجھے اردو والوں سے کوئی شکایت نہیں۔ انہوں نے بلراج مین را سے لے کر محمد سلیم الرحمٰن جیسے اہم ترین لکھنے والوں کی قدر نہیں سمجھی ۔ میں تو خیر ایک نہایت حقیر ذرہ ہوں۔ مگر اس بات کو سمجھنے کے لیے مجھے اسی برس کی لمبی قید کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس بات سے دل برداشتہ تھا کہ کچھ لوگوں نے مجھ پر الزامات لگا کر مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ مگر پھر میں نے سوچا کہ ہر زبان کے لکھنے والوں کے ضبط و تحمل اور ان کو نمایاں کرنے کے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ یہاں لوگ اپنی مٹھیوں میں اپنی دل شکنیوں کو پانسے کے معدوم اعداد کی طرح چھپائے رکھتے ہیں کہ موقع ملتے ہی سانپ کی طرح کسی پر چھوڑیں گے اور اچھل اچھل کر تماشا دیکھیں گے۔ میں اس تہذیب کے نمایاں ہوتے ہی بہت دنوں تک کسی ٹروما کی کیفیت میں رہا، عجیب بات یہ ہے کہ اس سے کچھ قبل ہی میرے اندر کا لکھاری اور شاعر دونوں تصنیف حیدر دم توڑتے جارہے تھے۔ یہ آخری وار تھا اور نہایت کارگر ، چنانچہ ان تمام لوگوں کو اس بات کی مبارکباد ضرورملنی چاہیے کہ وہ اپنے کام میں یقینی طور پر سو فی صدی کامیاب رہے ہیں۔

میرے فیس بک پیج پر اردو لکھنے اور جاننے والوں کی تعداد کم سے کم ہو گئی ہے۔ سید کاشف رضا اور واجد علی سید سے میں کتابوں کے بارے میں جانتا ہوں اس لیے وہ دونوں میرے پسندیدہ افراد ہیں۔ رامش میری دوست ہے اور وجاہت مسعود اور محمد شعیب میرے وہ محسن ہیں، جن کی وجہ سے میں اپنے پیغامات، الفاظ کے میووں میں ملا کر آپ تک پہنچاتا آیا ہوں۔ رمشٰی اشرف، کومل راجہ اور شامل شمس کی شخصیات اپنے طرز زندگی، خیالات اور تفکر کی وجہ سے مجھے بے انتہا پسند ہیں اور صبا حسین کے بغیر تو زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ ان کے علاوہ اگر باقی افراد مجھ سے یا میں ان سے دور ہوجائوں تو ایسا کوئی مضائقہ نہیں۔

اپنا خیال رکھیں اور خوش رہیں، آباد رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).