فلسفے کے طالبعلم کی کمیونزم پر تنقید


کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، دانشوروں کی ایک محفل سجی ہوئی تھی۔ پاکستان کے معروف کمیونسٹ دانشور نے ایک فلسفے کے ایک ذہین طالبعلم سے سوال کیا، میاں تم کمیونزم اور کمیونسٹوں کے خلاف کیوں ہو؟ ہر وقت کمیونزم کے خلاف بات کرتے رہے ہیں۔ کمیونسٹ اسکالر کے سوال پر ذہین طالبعلم نے جواب دیا۔ سر میں کمیونسٹ نظریے کے خلاف نہیں ہوں، میرا صرف یہ نقط نظر ہے کہ کمیونزنم بطور آئیڈیالوجی انسانیت اور جدید زندگی کے لئے مناسب نہیں۔ کچھ دہائیاں پہلے روس اور چین کے علاوہ دنیا کےجن ملکوں میں کمیونزم نے یلغار کی تھی میں اس کمیونزم کے خلاف ہوں۔

کارل مارکس کے ساتھ لینن، اسٹالن اور ماؤ وغیرہ نے اس کمیونزم کو جنم دیا تھا۔ جس کمیونزم کی بات محترم کارل مارکس کرتے ہیں وہ کمیونزم کبھی بھی کمیونزم نہیں تھا۔ اس کمیونزم نے آمریت کو جنم دیا۔ غیر انسانی رویوں اور اخلاقیات میں شدت پیدا کی۔ غلام سماج پیداکیے اور غیر جمہوری روایات کو عام کیا۔ اس کمیونزم میں آزاد اور طاقتور ذہین باغی افراد کے لئے کوئی عزت و احترام نہیں تھا۔ وہ کمیونزم فرد کی شناخت کا دشمن تھا اور انسانیت کے ساتھ اس کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا۔

وہ کمیونزم جو کارل مارکس کے دماغ سے نمودار ہوا وہ حقیقی طور پر غیر انسانی رویہ تھا۔ مارکس کا یہ کہنا کہ انسان مادے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی سادہ سی تشریح کچھ یوں ہے کہ انسان زندہ رہے یا مرجائے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سٹالن جیسے آمر نے روس میں مارکس کے کمیونزم کی خاطر لاکھوں انسانوں کا قتل عام کرایا کیونکہ سٹالن کی نظر میں شاید وہ انسان ہی نہیں تھے۔ ان میں کسی قسم کی کوئی روحانی بات نہیں تھی۔ وہ تو صرف اور صرف مادہ تھے مر گئے تو کیا ہوا؟ سٹالن کے نزدیک یہی میکنزم تھا۔ اس لئے میں اس طرح کی آئیڈیالوجی کو سپورٹ نہیں کرسکتا۔

محترم مارکس کا کمیونزم ہر اس نظریے، خیال اور تصور کو تباہ و برباد کردیتا ہے جو فرد کو طاقتور بنائے اور اسے ایک نئی شناخت سے نوازے۔ اس لئے بطور فلسفے کے ایک طالبعلم کے میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کمیونزم فرد کی انفرادیت کے لئے زہر قاتل ہے۔ کارل مارکس کا کمیونزم فرد کو اجتماع یا ہجوم کا زبردستی حصہ بنانا چاہتا ہے۔ مارکس کا کمیونزم انسانی شعور کی نشوونما کے خلاف ہے۔ وہ ایک فرد کی روحانی اور مادی ترقی کے تمام دروازوں کو بند کردیتا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہ مارکس کا تخلیق کردہ کمیونزم میں سچ کی تلاش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جدید انسان کبھی بھی کمیونسٹ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو دریافت نہیں کرسکتا۔ مارکس کا کمیونزم انسان کی روحانی دنیا کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی شاید یہ وجہ ہے کہ مارکس کا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ مارکس ایک عظیم اسکالر تھا اور مرتے دم تک وہ ایک عظیم اسکالر ہی رہا۔ عظیم دانشور مارکس نے بے تحاشا مطالعہ کیالیکن وہ ہمیشہ روحانی دنیا سے ناواقف رہا۔ شاید یہی اس کے کمیونزم کی بھی سب سے بڑی خامی رہی۔

فلسفے کے ذہین طالبعلم نے کہا کہ مجھے ہمیشہ آپ جیسے کمیونسٹ دانشوروں سے ایک ہی شکوہ رہا ہے کہ آپ جیسے جینئیس دانشوروں نے کارل مارکس کو نبی بنا دیا اور اس کی عظیم کتاب داس کیپیٹل کو بائبل سمجھ کر گھروں میں رکھا ہوا ہے۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ کمیونسٹوں کے لئے داس کپیٹل ایک الہامی کتاب کا درجہ رکھتی ہے اور الہامی کتابیں ہمیشہ گھروں میں ثواب کی خاطر لپیٹ کر کسی اندھیری جگہ پر رکھ دی جاتی ہیں اور ایسا ہی کمیونسٹوں نے داس کپیٹل کے ساتھ کیا۔

مارکس کا کمیونزم کہتا ہے کہ امیروں کو تباہ و برباد کرکے دولت کو تمام انسانوں میں برابر تقسیم کردیا جائے۔ مارکس کے مطابق اس طرح غریبوں کو ان کا حق دیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا روس اور چین میں ہوا؟ روس اور چین جہاں کچھ عرصے تک کمیونزم کا نفازرہا وہاں اب بھی کروڑوں انسان غریب ہیں بلکہ کمیونزم کے آنے کے بعد ان غریبوں کی زندگی میں مزید بدحالی آچکی ہے۔ امیروں کو تو تباہ کیا گیا اور غریبوں کو تقسیم کیا گیا۔ لیکن دولت اور امارت پیدا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے کمیونزم جدید انسانیت کے لئے تباہ کن اور خطرناک ثابت ہوا۔ جب چند لاکھ یا چند کروڑامیروں کی دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جائے اور مزید دولت پیدا نہ کی جائے تو کیسے غربت ختم ہو گی؟

یہی وجہ ہے کہ میں کارل مارکس کے کمیونزم کے خلاف ہوں۔ اب آخر میں یہ کہانی بھی سناتا ہوں کہ میرا کمیونزم کے حوالے سے کیانظریہ ہے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق کمیونزم کیپیٹالزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے اعلی ترین درجے کا نام ہے۔ حقیقی اور سچائی پر مبنی کمیونزم کیپیٹلزم کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ کیپیٹالزم کی خوبی یہ ہے کہ یہ سرمایہ پیدا کرتا ہے۔ دولت پیدا کرتا ہے۔

کیپیٹلزم سے پہلے اس دنیا میں جاگیردارانہ یعنی فیوڈلزم کا دور دورہ تھا۔ جاگیردارانہ نظام دولت پیدا نہیں کرتا تھا بلکہ یہ نظام عام انسانوں کی مال و دولت کو لوٹتا تھا۔ انسانوں کا استحصال کرتا تھا۔ بادشاہ لوٹی ہوئی دولت پر راج کرتے تھے۔ غریبوں کو لوٹ کر ان پرحکومت کرتے تھےلیکن دولت پیدا نہیں کرتے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کے استحصال کے خلاف کیپیٹلزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آیا۔

سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے بے تحاشا دولت پیدا ہوئی۔ غریب امیر ہونے لگے۔ ایک سوال بڑا اہم ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب دنیا میں بہت زیادہ دولت ہو گی وہ کبھی بھی ایک جگہ پر نہیں رہ سکتی۔ وہ ہر صورت تقسیم ہو گی۔ یہی سے سرمایہ دارانہ نظام سے حقیقی کمیونزم جنم لینا شروع ہوجاتا ہے۔ سیکینڈینیوین ممالک اور کچھ یورپییں ممالک اس کی واضح مثال ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک ایسا نظام وجود میں آیا جس نے بے تحاشا دولت پیدا کی۔ اسی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے سائنس، ٹیکنالوجی اور جمہوری روایات نے ترقی کی۔
اب سوال یہ ہے کہ غربت اور دولت کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ کیپیٹالزم یعنی سرمایہ دارانہ نظاممیں ایک ایسا نقطہ بھی ہمیشہ آتا ہے جب خودبخود دولت گردش کرنے لگتی ہے۔ یہ دولت جو سب غریبوں تک پہنچنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی کا نام حقیقی کمیونزم ہے۔

ایسا ہے تو پھر غریبوں کی آمریت کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ غریبوں کی آمریت کا نطام وجود میں بھی آجائے جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو کیا ہوگا؟ امیر قتل کردیئے جائیں گے اور مزید دولت پیدا ہونا بند ہو جائے گی اور پھر یہی غریب آپس میں جنگ و جدل کریں گے اور آخر میں وہی ہوگا غربت بڑھ جائے گی اور ہر طرف بے روزگاری اور بدحالی کا دور دورہ ہوگا کیا یہی سب کچھروس اور چین میں نہیں ہوا اور کیا اسی وجہ سے کمیونزم ناکام نہیں ہوا؟

آج چین اور روس بھی کیپیٹالزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ کیپیٹالزم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ جمہوریت کے لائف اسٹائل کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ فرد کی آزادی کا احترام کرتا ہے۔ اظہار رائے کو تباہ نہیں کرتا۔ کیپیٹالزم کی منفرد خوبی یہ ہے کہ یہ بھکاریوں کی طرح دولت تقسیم نہیں کرتا بلکہ دولت کو پیدا کرتا ہے اور یہی وہ تخلیقی قوت ہے جو صرف کیپیٹلزم کا خاصا ہے۔ کمیونزم دولت پیدا نہیں کرسکتا، اس کی ایک ہی خواہش ہے کہ امیروں کی دولت چھین کر غریب میں تقسیم کردی جائے۔ اسی لئے مارکس کا کمیونزم اور جاگیردارانہ نظام ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

پہلے جاگیردارانہ نظام میں بادشاہ امیروں اور غریبوں کو لوٹ کر حکومت کرتے تھے۔ کمیونزم میں امیروں کو لوٹ کر نام نہاد غریبوں کی آمریت کی بات کی گئی ہے اور ایسا حقیقت میں ہوا ہے۔ مجھے ان انسانوں پر رحم آتا ہے یا یوں کہہ لیں ہنسی آتی ہے جو اس جدید دور میں کمیونزم کے نفاز کی بات دھڑلے سے کرتے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ کارل مارکس جیسا جینئیس اسکالر روس اور چین میں کمیونزم کے نفاز کا حامی نہیں تھا؟ وہ جانتا تھا کہ روس اور چین تو غریب ملک تھے اور شاید اب بھی ہیں۔ کارل مارکس توامریکہ اور یورپ وغیرہ میں کمیونزم کا نفاز چاہتا تھا لیکن روس اور چین میں کمیونزم آگیا اور یہ بھی مارکس کے کمیونزم کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ہو گئی۔

کمیونزم میں غلط امید دلوائی گئی تھی کہ ائے دنیا کے غریب انسانو تم جلد امیر ہو جاؤ گے لیکن اصل میں کیا ہوا، جہاں جہاں تھوڑا بہت کمیونزم ہے وہاں آج بھ سب سے زیادہ غربت ہے۔ کمیونزم مر گیا، انقلابی مر گئے۔ امید دم توڑ گئی۔ غریب آج بھی غریب ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ، یورپ اور سکینڈینیوین ممالک کا غریب ترین انسان بھی روس میں بھاری بھرکم تنخواہ لینے والے شہری سے زیادہ خوشحال ہے۔ یہ ہے کمیونزم اور کیپیٹالزم کا بنیادی فرق۔ امریکہ اور یورپ کیپیٹالسٹ ممالک ہیں، خوشحالی اور ترقی وہاں ٹھاٹھیں مار رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی وہی سے جنم لیتی ہے۔ لیکن کیا ہوا روس کے ساتھ اور وہاں جہاں کمیونزم کا غلبہ ہوا؟

کمیونزم کی وجہ سے کروڑوں انسان آزادی سے محروم ہوئے، ان کی انفرادیت تباہ ہوئی۔ کمیونزم میں انصاف نہیں تھا، صرف بدمعاشی کا رویہ تھاور بدمعاش کا انجام ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کمیونزم کا ہوا۔ یہ نطام انسان کے لئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ میری نصیحت کمیونسٹوں کو یہی ہے کہ وہ اب مارکس کے سحر سے باہر نکلیں اور دولت پیدا کریں۔ امارت کو بڑھائیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید زرائع کا استعمال کریں۔ اس احمقانہ تصور سے باہر نکلیں کہ دولت غریبوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ اتنی دولت پیدا کی جائے کہ دنیا ہر طرف بے تحاشا دولت کی ریل پیل ہو۔ ایسا ہوگا تو یہ دولت دنیا کے ہر غریب تک خود بخود پہنچے گی اور یہی سے وہ کمیونزم نمودار ہوگا جو کیپیٹالزم کا اعلی ترین درجہ ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ ایسا کمیونزم جلد نمودارہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).