بھائی وہ پرانے والا مِلے گا؟


پچھلے دنوں ٹیچرز ڈے منایا گیا تو میری یادیں اپنے سکول کے زمانے میں جا پہنچیں۔ ہائی سکول کی تعلیم میں نے 1976 سے 1981 تک مکمل کی۔

آٹھویں جماعت میں ایک استاد ملے، اعجاز پرویز۔ ابھی نوجوان ہی تھے۔ ریاضی میں سیٹس تھیوری ان دنوں نئی نئی نصاب میں شامل ہوئی تھی اور اکثر اساتذہ بھی اس سے نابلد ہی تھے۔ ایک دن سر اعجاز ہمیں سیٹس میں سے سب سیٹس بنانا سکھا رہے تھے۔ ایک سیٹ میں سے کتنے سب سیٹ بن سکتے ہیں اس کے لئے فارمولہ لکھوایا N2 ) (، ایک دو مثالوں سے سمجھا بھی دیا۔ میں نے دو تین مثالیں اور حل کیں تو فارمولہ غلط ثابت ہو گیا، کافی مغز ماری کی گئی مگر معمہ حل نہ ہوا۔ آخر سر نے فارمولے کو نظر انداز کر کے ٹرائل اینڈ ایرر سے سوال حل کرنے کا کہہ دیا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ میں آٹھویں سے میٹرک میں پہنچ گیا، اس دوران فارمولے کا عقدہ بھی حل ہو گیا کہ N2 نہیں بلکہ 2N تھا۔ ایک دن سر اعجاز میری میٹرک کی کلاس کے باہر پہنچے، مجھے کلاس سے باہر بلوایا اور کہا ”شکیل یاد ہے وہ سیٹ والا فارمولہ ٹھیک نہیں ہو رہا تھا، آج میں نے ڈھونڈ لیا، وہ یوں تھا“، پھر انہوں نے مجھے تفصیل سے سمجھانا شروع کیا۔ (یہ یاد رہے کہ چار عشروں پرانی بات ہے، آج کل کی طرح علم بٹن کے کلک کی نوک پر نہیں دھرا تھا۔ )

میٹرک میں ایک اور استاد ملے، رانا خورشید احمد۔ یہ کافی تجربہ کار اور سینئر استاد تھے۔ سائنس کے مضامین پڑھایا کرتے تھے۔ کیمسٹری کی کتاب میں غالباَ آخری باب ہوا کرتا تھا صنعتوں کے بارے میں۔ سر رانا نے ہمیں مختلف انڈسٹریوں کے وزٹ کروائے، داؤد ہرکولیس میں کھاد بنتی دکھائی، سلوا کی فیکٹری میں بناسپتی گھی اور صابن، باٹا میں جوتے اور پاکستان مِنٹ میں سکے بنتے دکھائے۔ اس سب کے بعد (سنہ 1981 میں، میٹرک میں ) انہوں نے ہمیں ایک ریسرچ اسائنمنٹ دی۔ لائبریریوں کی راہ دکھائی، کتابیں تلاش کرنے کا طریقہ اور ان میں سے متعلقہ مواد ڈھونڈنے کا سلیقہ سکھایا اور دیگر صنعتوں جن میں ماچس سازی، سیمنٹ سازی وغیرہ شامل تھیں کے بارے میں رپورٹ لکھنے کو کہا۔

رانا صاحب دس پندرہ سال پہلے وفات پاگئے، اور اعجاز پرویز صاحب سے میرا تعلیم کے بعد کوئی رابطہ نہ رہا، اللہ انہیں خوش رکھے اور دونوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے

اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں کسی ایچیسن کالج، برن ہال یا گھوڑا گلی کیڈٹ کالج کے قصے لے بیٹھا ہوں تو آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ گو یہ غلط فہمی جائز ہی ہے۔ تو جناب یہ تعلیمی معاملات کسی کیڈٹ کالج یا انگلش میڈیم پرائیویٹ سکول کے نہیں، ایک اردو میڈیم سرکاری سکول کے ہیں، ”گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ، لاہور“ کے۔

انجینئرنگ کی ٹریننگ کے دوران کسی لغزش پر ڈانٹ پڑتی تو کہا جاتا (ترجمہ، اور ناقابلِ اشاعت مواد حذف کرنے کے بعد) ”یہ کوئی۔ بھاٹی گیٹ سکول نہیں ہے“ اتنے بڑے ادارے کا کیا نام لوں، ہم تو پڑوس میں سینٹرل ماڈل سکول کے لڑکوں سے ہی دبے دبے رہتے تھے۔ مگر یہ تھا ہمارا سکول، جہاں کلاس روم میں شاید پنکھے بھی پورے نہیں ہوتے تھے، اکثر اساتذہ سردیوں میں دھوپ سِکانے گراؤنڈ میں اور بہاری موسم میں تازہ ہوا کا لطف اٹھانے درختوں کے نیچے بٹھا لیا کرتے تھے، لیکن پڑھاتے وہ ایسے تھے جس کا نمونہ میں اوپر دکھا چکا ہوں۔

نوے اور دو ہزار کی دہائیوں میں میرے بچے اس سے بہت بہتر سکولوں میں پڑھے، ان سکولوں میں، جن کے سٹوڈنٹس کے سامنے ہم اپنی کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں گھگیاتے ہی رہتے تھے۔ مگر میرے بچوں نے پہلی دفعہ کسی انڈسٹری کی شکل شاید یونیورسٹی کی انٹرنشپ کے وقت دیکھی۔

آج کل نئے پاکستان کا غلغلہ ہے، نصابِ تعلیم یکساں کرنے کی باتیں ہیں، پرانا ہونا گویا گالی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر نقشِ کہن بس نظر آنے کی دیر ہے کہ مٹ جائے گا، ایسے میں ”اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ لاہور“ کا یہ دَبُو، ڈرا سہما، انڈر کانفیڈنٹ بچہ جھجکتے ہوئے پوچھ رہا ہے،
”بھائی نئے پاکستان میں سکول وہ پرانے والا ملے گا؟ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).