عورت کو کام نہیں مگر سماج کے برے رویے مارڈالتے ہیں !


قدیم زمانے سے دنیا کی مختلف تہذیبیں عورت کے لئے سخت رویوں کی حامل تھیں۔ چانکیہ نے ارتھ شاستر میں لکھا ہے کہ ”دریا، سپاہی، سینگ، پنجے رکھنے والے جانور، بادشاہ اور عورت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے“ روسی اسے خبیث روح سمجھتے جو نومولود بچوں میں داخل ہوجاتی ہے۔

چینی لوگوں کا کہنا ہے کہ عورت کی بات سن لینی چاہیے مگر اس کے مشورے پر عمل ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
روم کا ورجل اسے متلون مزاج، بدفطرت سمجھتا تھا۔ آریا، بدھ اور یہودی بھی عورت پر کچھ زیادہ مھربان نہ تھے۔ مگر اسلام کے بعد انسانی حقوق و رویوں میں قدرے تبدیلی آئی۔ مگر دور قدیم سے جدید دور تک حوا کی بیٹی کی قسمت کی ڈور مرد کے ہاتھ میں رہی۔ اس نے مذہب کی آڑ میں عورت کو ستانا شروع کیا۔

معاشرہ اس وقت ترقی کرتا ہے جب وہ انسان دوستی، روا داری اور یکجہتی جیسے اخلاقی رویوں کو فروغ دیتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ذہنی اور صنفی تفریق کی کم گنجائش موجود ہو ایک مثالی سماج کہلاتا ہے۔ ۔ صحیح معنی میں تعلیم یافتہ معاشرے میں ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ جو ذہنی اور معاشرتی الجھنوں سے نجات پا لیتے ہیں، مگر جن معاشروں میں صنفی تفریق عروج پر ہو، وہاں گھرکا ادارہ منتشر اور سماجی زندگی زوال پذیر ملتی ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت کا استحصال فقط مرد کرتا ہے۔ عورت کے حقوق عورت بھی صلب کرتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ہر سال بے شمار عورتیں جسمانی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ یہ گھریلو تشدد نفسیاتی و جسمانی پیچیدگیوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ جس سے ان گھروں میں رہنے والے بچے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر 2010ء سال کے دوران کرمنل لا اورکوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت واضح پالیسی مرتب کی گئی تھی۔ جس کے مطابق گھریلو تشدد یا ملازمت کی جگہ پر ہراساں کرنے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ادا کیا جائے گا۔

اس طرح کے قوانین کس حد تک خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔ سائبرکرائم و ملازمت کی جگہ ہراساں کرنے کے مختلف مقدمات عدالتوں میں دائر کیے گئے ہیں۔ جن میں اکثر کے حتمی نتائج یا سزا پر عملدرآمد کے عملی مظاہرے منظر عام پر نہیں آئے۔ جس کی ایک وجہ با اثر لوگوں کی مضبوط دفاعی حیثیت بھی ہے۔

علاوہ ازیں دوسرا سب سے بڑا مسئلہ معاشرتی اقدارکا ہے۔ جس کے مطابق گھریلو تشدد ہو یا جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں، مگر تھانوں میں رجسٹر نہیں ہو پاتے۔ گھریلو تشدد کا شکار ایک خاتون کو جب میں نے قانونی مدد حاصل کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ جس کی وجہ خاندانی رسوائی کا ڈر بتایا گیا۔ معاشرہ عورت کو مصلحت پسندی کے نام پر ظلم سہنے کی ترغیب دیتا ہے۔

بہت سی عورتوں کے لیے خلع کی درخواست دائرکرنا یا غیر انسانی رویوں پر لب کشائی ناممکن سی بات دکھائی دیتی ہے، کیونکہ روایتی ماحول عورت کو خود مختار فرد کی حیثیت نہیں دیتا۔ اخلاقی قدروں کا یہ دہرا معیار اسے قانونی مدد لینے سے روکتا ہے۔ لہٰذا وہ خاموشی سے ظلم سہنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف عدالتی کارروائی کی طوالت اور وکلا کے بھاری بھرکم معاوضے ان کا حوصلہ توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود عورت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والے قانونی دائرے، معاشرے کو غیر محسوس تبدیلی کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ جس کا طریقہ کار سست رفتار دکھائی دیتا ہے، کیونکہ بہت سے معاملات میں بروقت نتائج حاصل نہیں ہوپاتے۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے ایکسیڈنٹ کے بعد زخمی کو نقصان اٹھانے والوں سے زیادہ پہنچتا ہے بنسبت اس حادثے کے۔ بالکل اسی طرح یہ تمام تر قانونی معاملات تفتیشی مراحل میں باریک بینی اور صحیح تجزیے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور قیاس آرائیوں سے علیحدہ کرنا مشکل مرحلہ ہے۔ لہٰذا ایسے معاملات کی شفاف چھان بین کے لیے مہارت درکار ہے۔ جہاں تک گھریلو تشدد کا سوال ہے تو یہ مسئلہ مشرق اور مغرب میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔

برطانیہ کے جرائم پر مبنی سروے کے مطابق عورتیں مردوں کے مقابلے میں گھریلو تشدد اور غیر انسانی رویوں کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔ جس کے مطابق 2016ء کے دوران 1.2 ملین عورتیں تھیں جب کہ 651000 مرد پرتشدد واقعات کا شکار ہوئے۔ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مغربی معاشرے بھی عورت کا استحصال کرتے ہیں۔

غصہ یا جارحیت مردانہ مزاج کی خاصیت سمجھی جاتی ہے اور عورتوں کے لیے مصلحت یا مصالحتی رویے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ لڑکیاں گھرکا کام کاج کرتی ہیں جیسے کھانا وغیرہ پکانا۔ لڑکوں کوگھرکے کام کاج میں ملوث کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔ آگے چل کر جب میاں بیوی دونوں ملازمت پیشہ ہوتے ہیں تو کام کا زیادہ بوجھ عورت کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اور مرد عورت کا ہاتھ بٹانے کے بجائے تمام بوجھ اس کی ذات پر ڈال دیتا ہے۔

ایک ملازمت پیشہ خاتون روزانہ آفس کے علاوہ گھر میں چھ سے سات گھنٹے کام کرتی ہے۔ جس کے مطابق ان کے کام کے اوقات بارہ سے چودہ گھنٹے ہوجاتے ہیں۔ تمام گھر نوکر افورڈ نہیں کرسکتے، جب کہ ایک گھر میں چھ سے آٹھ افراد پائے جاتے ہیں۔ مشترکہ کنبے کے نظام میں دس سے بارہ لوگ بھی ملتے ہیں، مگر ان تمام افراد میں کام کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو پاتی۔

کھانا گرم کرنے سے فرج کھول کے خود اشیا لینا بھی بعض گھرانوں میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خاتون ایک ہی وقت میں بچوں کے ساتھ بہت سارے رشتوں کو سنبھالتی ہے۔ حتیٰ کہ بچے تک اپنا کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں خود انحصاری کا بہت بڑا فقدان پایا جاتا ہے۔ بہت سے گھریلو اور معاشرتی مسائل اس سوچ کے اردگرد گھومتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ساؤتھ ایشیا کے اکثر ملکوں و یورپ میں ذاتی ذمے داری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ بچے، جوان اور بوڑھے اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ اپنے کافی معاملات خود دیکھتے ہیں۔ ان کی تربیت خود انحصاری کی صلاحیت کو ابھارتے ہوئے کی جاتی ہے۔

صنفی تفریق کی وجہ کام کا بوجھ اور رویوں کا استحصال زیادہ تر عورتوں کے حصے میں آتے ہیں۔ معاشرے اس وقت صحیح ترقی کرتے ہیں جب مادی ترقی کے ساتھ اخلاقی اور انسانی رویوں کی پاسداری کا خیال رکھا جائے۔ مادی اشیا کی فراہمی، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی جب تک رویوں میں توازن اور اعتدال نہ ہو۔ کام کی منصفانہ تقسیم کے بعد چند بنیادی اصول بھی وضع کیے جانے چاہئیں۔

اس معاشرے میں ایک طرف بظاہر عورتیں ظلم کی چکی میں پستی ہیں۔ تو دوسری طرف ان دیکھی زنجیروں میں قید ہیں۔ جسمانی تشدد سے کہیں زیادہ رویوں کی جارحیت اور تاثرات کی ہراسمینٹ کا سامنا کرتی ہیں۔ جسمانی کام کی درجہ بندی بھی بہت ضروری ہے۔

اگر اس طرح کے معاملات میں حقوق و فرائض کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے تو گھریلو سطح پر بد مزگی اور تشدد کی نوبت نہیں آئے گی۔ ساؤتھ ایشیا کے کچھ ملکوں میں آپ کو گھر سے معاشرتی زندگی تک حقیقت پسندانہ سوچ دکھائی دے گی۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ انا پرستی اور دکھاوا ہے۔ جس سے چاہنے کے باوجود چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ ہم زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ سماجی منظوری اور جھوٹی شان کا جواز فراہم کرنے کے لیے گزارتے ہیں۔

اسلام میں مشترکہ کنبے کے نظام کا کوئی تصور نہیں ہے۔ میان بیوی کے لئے پرائیویسی برقرار رکھنے کا حکم ہے۔ یعنی ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ان کا الگ یونٹ ہونا ضروری ہے۔ جس میں دوسرے افراد کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے سورہ النساء میں واضع کیا گیا ہے کہ عورت کے لئے گھر کے کام فرض نہیں جتنی اہمیت بچوں کی بہتر طور پر تربیت کی ہے۔ بیوی کے ساتھ احسن رویے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ وہ بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے کرسکے۔ مرد کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر وہ صاحب حیثیت ہء تو اپنے کام بیوی سے کروانے کے بجائے ملازم رکھے۔ کیونکہ جسمانی تھکن، برے رویوں اور جارحیت کا شکار عورت کبھی اچھی ماں نہیں بن سکتی۔ ایک منتشر ذہن ماں کے بچے بھی اس کی ذات کا عکس کہلاتے ہیں۔

شادی شدہ عورت کو باندی بنا کر رکھنے کا تصور دوسرے مذاہب سے آیا۔ یعنی بیوی بچوں کی پرورش کے ساتھ پورے کنبے کی دن رات خدمت کے فرائض سرانجام دے گی۔ گھر کے باقی فرد آرام سے رہیں گے۔ جبکہ شوہر بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمیداری سے عہدہ برا سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا فرض پیسے اور سہولت کی فراہمی ہے۔

گھر میں سہولت کی فراوانی یا پیسہ مرد کی توجہ کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ جب تک ذمیداری کا توازن یکساں نہیں ہوتا، رشتوں میں فاصلے برقرار رہیں گے۔ در حقیقت جہیز، عورتوں کے مابین جھگڑے و خدمت کا تصور دوسری قوموں کے رہن سہن سے ہماری سماجی زندگی میں منتقل ہوئے۔ یہ مذہب کے مقابلے میں ثقافتی نفوذ کی وجہ سے مروج ہوئے۔

عورت کسی طور کمزور نہیں ہے۔ وہ محنت مزدوری کے ساتھ گھر کے کام کاج بھی نپٹاتی ہے۔ وہ ذہنی، جذباتی و روحانی طور پر مظبوط ہے۔ وہ باطن کی راہوں کی ہمسفر ہے۔ داخلیت اور باطن کی روشنی اسے منزل کے نشان سجہادیتی ہے۔ اسے ہر رویے کا پس منظر معلوم ہے۔ اسے معاشرے نے جتنا راستہ دیا اس نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔
اسے مظبوط قانونی تعاون درکار ہے۔ معاشرتی اقدار اور ذاتی رویوں کی درستگی کی ضرورت یے۔ جنسی مریضوں کی بروقت نشاندہی کی ضرورت ہے۔ یہ غفلت سماج کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو نظرانداز کردیتا ہے جب تک کوئی گھناونا جرم سرزد نہیں ہوتا!

۔ گھر کے معاملات و خاندانی نظام کی ازسر نو تعمیر کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ عورت کی تیزی سے زوال پذیر ہوتی ہوئی صحت کی وجہ منفی و غیر انسانی رویے ہیں۔ یہ ذہنی دباؤ اور اظھار پر پابندی اسے لمحہ بہ لمحہ زندگی سے دور کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).