مسلم لیگ (ق) کی اڑان آخر کب تک؟


ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں اتوار کے روز دیگر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے لیے پولنگ ہوئی۔ مجموعی طور پر 35 حلقوں میں الیکشن ہوئے، جن میں قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلیوں کے 24 حلقے شامل تھے۔ ضلع چکوال کی تحصیل تلہ گنگ کے حلقہ این اے 65 میں عام انتخابات میں مسلم لیگ قاف کے امیدوار اسپیکر قومی اسمبلی چودھری پرویز الہٰی نے بھر پور کام یابی حاصل کی تھی، لیکن پنجاب اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر انھوں نے اس نشست سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے این اے 65 کو خالی قرار دیتے ہوئے، یہاں ضمنی انتخاب کا اعلان کیا۔ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون کو اس کے امیدوار سردار فیض ٹمن نے دست برداری اختیار کر کے بری طرح بے دست و پا کر دیا۔

اس سے پہلے عام انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ نون ہی کے امیدوار سردار ذوالفقار دُلہہ  نے بھی عین وقت پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے مسلم لیگ کو بڑ ا سر پرائز دیا تھا۔ یہ دوسرا موقع تھا، جب مسلم لیگ کی ضلعی قیادت بے چار گی کے عالم میں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن جیسی صورت احوال سے دو چار ہوئی۔ لیکن اس میں زیادہ قصور وار خود یہاں کی ضلعی قیادت ہی ہے، جس کے اندرونی خلفشار نے پارٹی کو بد ترین بحران کی نذر کر دیا۔

مسلم لیگ نون کے امیدوار سردار فیض ٹمن کی دست برداری کے بعد تین امیدواروں نے قسمت آزمائی کی۔ مسلم لیگ قاف اور تحریک انصاف کے مشترک امیدوار چودھری سالک حسین، تحریک لبیک کے امیدوار میجر (ر) محمد یعقوب سیفی اور پاکستان جسٹس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار قاضی محمد عامر میدان میں مقابلے کے لیے آخر دم تک موجود رہے۔ این اے 65 میں کل 468 پولنگ اسٹیشن، 1223 پولنگ بوتھ بنائے گئے، جب کہ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 546841 ہے۔ جن میں 284947 مرد ووٹرز اور 261894 خواتین ووٹرز ہیں۔

حالیہ ضمنی انتخاب میں جو چیز سب سے نمایاں دکھائی دی، وہ عوام کی عدم دل چسپی تھی۔ ٹرن آؤٹ مایوس کن حد تک کم رہا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آؤٹ 24.75 فی صد رہا، جو کہ ملک کے دیگر حلقوں کی نسبت سب سے کم ٹرن آؤٹ تھا۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جیت کا مارجن بھی سب سے زیادہ تھا۔ جیتنے والے امیدوار مسلم لیگ قاف کے سربراہ، سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کے صاحب زادے چودھری سالک حسین نے ایک لاکھ 917 ووٹ، جب کہ دوسرے نمبر پر آنے والے تحریک لبیک کے امیدوار میجر (ر) یعقوب سیفی نے 32326 ووٹ حاصل کیے۔ یوں 68 ہزار پانچ سو 61 ووٹوں کی برتری کے ساتھ چودھری سالک حسین نے کام یابی حاصل کی۔

اس انتخاب کے حوالے سے دوسری نمایاں چیز جو دیکھنے میں آئی کہ دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم میں کسی قسم کی کوئی گرم جوشی دکھائی نہیں دی۔ خاص طور پر مسلم لیگ قاف کی چند دنوں کی انتخابی مہم تو بس کچھ کارنر میٹنگز تک ہی محدود رہی۔ کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا گیا۔ جب کہ تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی جنھوں نے کچھ دن یہاں گزارے، کئی ایک مقامات پر بڑے بڑے جلسے بھی کیے، لیکن ان کے یہ جلسے الیکشن کے دن ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کام یاب نہیں ہو سکے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ نون کی حمایت حاصل کرنے میں بھی انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ اگر یوں کہا جائے کہ انھیں بھی مسلم لیگ نون کی حمایت سے کوئی دل چسپی نہیں تھی تو بے جا نہ ہو گا؛ کیوں کہ وہ جلسوں میں تحریک انصاف، مسلم لیگ قاف اور مسلم لیگ نون کی قیادت پر خوب گولہ باری کرتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلم لیگ قاف کا مخالف مسلم لیگی ووٹر بھی انھیں ووٹ دینے سے عاجز رہا۔

تلہ گنگ شہر جہاں مسلم لیگ قاف  نے حالیہ عام انتخابات میں بھر پور فتح حاصل کی ہے اور وہ اس حلقے کی دو تحصیلوں تلہ گنگ اور لاوہ کی میونسپل کمیٹیوں میں بھی اقتدار رکھتی ہے، شہر کے عوام کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دی۔ شہر کے پولنگ اسٹیشن سنسان پڑے رہے، بہت سے شہریوں نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے بجائے شدید بیزاری کا اظہار کیا۔ ایسی ہی صورت احوال حلقہ کے اکثر دیہاتوں اور قصبوں میں بھی رہی۔ اگر چہ تحصیل کلر کہار اور علاقہ ونہار کے بعض علاقوں میں مقابلے کی بھر پور فضا دیکھنے میں آئی، جس کی بنیادی وجہ وہاں کے مسلم لیگی (نون) دھڑوں کی جانب سے تحریک لبیک کی حمایت تھی۔ لیکن تحصیل تلہ گنگ اور لاوہ میں انتخابی عمل نہایت سست روی کا شکار رہا۔ بنیادی طورپر حلقہ کے ووٹرز اس ضمنی انتخاب سے لاتعلق ہی رہے۔ اس کی بڑی وجہ مجموعی ملکی صورت احوال ہے، جس نے تبدیلی کے علم بردار پر جوش ورکر ز سمیت عام آدمی کو بھی شدید مایوس کیا ہے۔

تحریک انصاف کے ورکرز کی مایوسی اور لاتعلقی کی دوسری وجہ یہ بھی رہی کہ وہ ضمنی انتخاب سے پہلے پر امید تھے، کہ عام انتخابات کے بر عکس ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کے بجائے اپنا امیدوار نام زد کرے گی۔ لیکن مرکزی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کی بنا پر یہاں سے تحریک انصاف کا امیدوار نام زد نہ کیا گیا، جس سے ورکرز میں بد دلی اور مایوسی نے ڈیرے ڈال لیے۔ اس جلتی پر تیل کا کام مسلم لیگ قاف کی علاقائی قیادت کے رویے نے کیا۔ انھوں نے تبدیلی کے ورکرز کو عام انتخابات کی طرح اس مرتبہ بہلانا ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی انھوں نے متوقع بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ان کے بیانات کو لائق اعتنا جانا۔ یہ درست ہے کہ 2008ء سے این اے 65 میں مقابلہ ہمیشہ مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف کے درمیان ہی چلا آرہا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی پارٹی یہاں اس حد تک اپنا وجود قائم نہیں کر پائی ہے کہ وہ مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔ تحریک انصاف اگر چہ تیسری بڑی قوت بن کر ابھری ہے لیکن تا حال وہ تن تنہا پرواز کرنے کے قابل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں انھیں مسلم لیگ قاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑی۔

دوسری جانب میونسپل کمیٹی تلہ گنگ اور لاوہ میں قریبا دو سال سے مسلم لیگ قاف مسند اقتدار پر فائز ہے، مگر دونوں میونسپل کمیٹیوں کی کارکردگی صفر کے دائرے سے نہیں نکل سکی ہے۔ تلہ گنگ شہر کی زبوں حالی نے شہریوں کو مایوسیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ جتنی امیدیں اور توقعات اہل تلہ گنگ کو مسلم لیگ قاف سے وابستہ تھیں، میونسپل کمیٹیوں کی کار کردگی نے انھیں خاک آلود کر دیا ہے۔ عوام بری طرح مایوسی کا شکار ہیں۔ میونسپل کمیٹی لاوہ کی صورت احوال بھی شدید ابتری کا شکار ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے دوران بھی لاوہ شہر میں پینے کے پانی کا مسئلہ سامنے آیا تھا، جس پر مسلم لیگ قاف کی قیادت نے ہنگامی زر کثیر صرف کر کے حل کرنے کی نوید سنائی تھی، لیکن اب پھر ضمنی انتخاب کے دوران وہی پانی کی کمی کا معاملہ سامنے آیا ہے، تو اس ایک بات ہی سے اندازہ لگانے میں کسی کو کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ وہاں کی مسند اقتدار پر فائز قیادت کہاں تک مسائل حل کرنے میں کام یاب ہو سکی ہے۔ لیکن اس مایوسی کے عالم میں بھی مسلم لیگ قاف کے امیدوار کو ملنے والے ایک لاکھ سے زائد ووٹ یہ بتا رہے ہیں، کہ اہل علاقہ ابھی تک پر امید ہیں۔ مگر اصل امتحان کا آغاز تو اب ہونے والا ہے، اگر قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر براجمان مسلم لیگ قاف کے اراکین کی کار کردگی بھی میونسپل کمیٹیوں کے مانند ہی رہی، تو اس کی یہ اڑان آخر کب تک جاری رہے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).