چارسدہ سے باچا خان پکارتے ہیں


\"farnood01\"

مت بھولیئے کہ کل جنوری کی بیس تاریخ تھی۔ یہی بیس جنوری ربع صدی قبل بھی آئی تھی، مگرباچا خان گزر گئے تھے۔ اب جب تک یہ تاریخ باقی ہے باچا خان کا جرم باقی ہے۔ وہ جرم جس کی سزا پسِ مرگ بھی باچا خان کو مل رہی ہے۔ کل چارسدہ کی باچا خان یونیور سٹی پہ حملہ ہوا۔ کچھ نہیں ہوا، ربع صدی قبل وہ طبعی موت گزرے تھے کل ان پہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ ہر بار وہ بچ جاتے ہیں کل بھی وہ بچ گئے۔ کچھ بچے نہ بچے باچا خان کل بھی بچیں گے۔ سن اٹھا سی میں وہ ایک بار ہی مرے تھے اور ابد تک جینے کے لئے مرے تھے۔ سات پانیوں کے آر پار جہاں کہیں بھی ایک عالم موجود رہے گا باچا خان موجود رہیں گے۔ بھول جاتے ہیں کہ باچا خان جیسی ہستیاں روح کی گرہوں سے آزاد ہوتی ہیں۔ عہد ساز لوگوں کا زمانہ تو اس دن سے شروع ہوتا ہے جس دن سے ان کا پیکرِ خاکی تہہِ خاک رکھ دیاجاتا ہے۔ ان کا سوزِ جگر ایک بے تاب روح بن کر قوموں کی زندگیوں میں حلول کر جاتا ہے۔ شعور کے نئے جہانوں کی فصیلیں انہی کے درد سے اٹھتی ہیں۔ فصیلوں پہ رکھے آگہی کے چراغ انہی کے خون سے جلتے ہیں۔ گزرے ہوئے وقت سے چمٹے ہوئے لوگ اس نئی دنیا سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ روشنیوں سے لڑتے ہیں مرتے ہیں پیوند خاک ہوتے ہیں اور گمنامیوں کی خوراک ہوجاتے ہیں مگر روشنی کی وہ ایک کرن بہرطور سلامت ہی رہتی ہے۔

خدا جانے ذرائع ابلاغ نے ٹھیک خبر دی کہ نہیں۔ ایک بات تو سامنے کی ہے کہ باچا خان یونیورسٹی میں علم کو یرغمال بنایا گیا۔ لاشیں دفنائی جا چکی ہیں اور جذبات پہ اوس پڑنا شروع ہوگئی ہے۔ انہماک میسر ہو تو کچھ بات کرلیں؟ کیوں نہ ہم مل کے ریاست کے نمائندوں سے پوچھ لیں کہ آپ ہاتھی کے کان میں اور کتنی دیر سوئیں گے؟ وقت ریت کی مانند مٹھی سے نکلے جا رہا ہے مگر ریاست اب تک اپنا بیانیہ واضح نہیں کر سکی ہے۔ جو کر کے دکھایا جارہا ہے وہ سیاسیات و سماجیات کے طالب علم کیلئے الجھن پہ الجھن بڑھاتا جارہا ہے۔ خاکم بدہن یہ بیانیہ بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ نہ بن جائے جس کی وضاحت کے لئے پون صدی کا عرصہ بھی ناکافی ہو۔ یار لوگ دہشت گردوں کی کمر لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ ایسا ہی رہا تو یار لوگوں کو یہ کمر ہی لے بیٹھے گی۔ سپہ سالار کہتے ہیں ہم کمر توڑ دیں گے اور تماش بین پوچھتے ہیں کہ اب تک کمر کیوں نہیں ٹوٹی۔ اب اتنی سی بات انہیں کیسے سمجھائی جائے کہ دماغ کمر میں نہیں ہوتا۔ آپ اجلی دستاریں تو کھول کے دیکھیئے کہ کتنا کام رفو کا نکلتا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ کہ ہم ان لوگوں سے بر سر جنگ ہیں جن کے پاس کھو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ پورے خلوص سے اپنی کمر ہتھیلی پہ لیئے سامنے ہیں۔ آپ کمر توڑنے پہ کمر بستہ ہیں تو وہ بھی کمر تڑوانے پہ آمادہ ہیں۔ کس کس کی کمر اور کون کون سی کمر توڑیں گے؟ آپ جیش محمد کی قیادت کو تحویل میں لے لیں گے مگر تنظیم اسلامی پہ تو ہاتھ پھر بھی نہیں ڈال سکتے۔ تنظیم اسلامی کا نام کیا روا روی میں قلم سے صادر ہوگیا؟ ایسا نہیں ہے۔ ریاست اور سماج کے باب میں اس وقت اگر کوئی بھیانک بیانیہ ہوسکتا ہے تو وہ تنظیم اسلا می کا ہے۔ نہ تو اس جماعت کی کمر توڑی جا سکتی ہے اور نہ ہی مجھ جیسا شخص کمر توڑنے کا مطالبہ کرے گا۔ دماغ درست کرنے کی بات الگ ہے اور یہ کرشمہ ریاست کے بیانیئے کے بغیر ہو نہیں سکتا۔

ہمارا قومی المیہ اس وقت یہ ہے کہ ہم دہشت گردوں کا صفایا کرنا چاہ رہے ہیں۔ ضرورت جبکہ اس بات کی تھی کہ دہشت گردی کا صفایا کیا جا ئے۔ دہشت گردوں کا تعلق دہشت گردی سے ہے اوردہشت گردی کا تعلق ایک فکر سے ہے۔ یہ فکر اگر سلامت ہے تو توپخانہ خالی ہوجائے گا کمر جوں کی تو رہے گی۔ ہمیں اطمینان دلانے کیلئے کہہ دیا جاتا ہے کہ صاحب داعش کا یہاں کوئی گزر نہیں۔ مان لیتے ہیں کہ کوئی گزر نہیں لیکن داعش اگر گزرنا چاہے تو کیا اسے رستہ بھی میسر نہیں ہوگا؟ کراچی سے درہ آدم خیل تک کے راستے آج بھی داعش کے لئے دیدہ ودل فرش راہ ہیں۔ مدارس کے طلبا تو بم بارود سے کھیل کر کافی حد تک سمجھ گئے کہ ہمارے ساتھ کہاں ہاتھ ہوا ہے، اب کہ جو قیامت اٹھ رہی ہے وہ جدید عصری تعلیمی اداروں سے اٹھ رہی ہے۔ کراچی میں آغا خان یو نیور سٹی کی بس پر حملے میں این اے ڈی جیسی درس گاہ کے نوجوان کا ملوث ہونا کیا اتفاق ہے؟ ڈاکٹر اکمل وحید برادران کون ہیں؟ کور کمابڈر کراچی پہ حملے میں ملوث لوگ کون تھے؟ القاعدہ کو بر صغیر میں تنظیمی ذمہ داریاں سونپنے کیلئے افراد کار کون سی جماعتوں سے میسر آرہے ہیں؟ خالد محمد شیخ کسی پرامن مذھبی جماعت کے دفتر سے یونہی تو برامد نہیں ہوجاتے۔ فرصت سے کبھی سوچیئے گا کہ نوجوان خون کا جمعیت سے حزب التحریر کی طرف جانا حزب التحریر سے جست لگا کر تنظیم اسلامی کی طرف آنا تنظیم اسلامی سے پھدک کر حزب التحریر میں جانا جماعت اسلامی چھوڑ کے نیچے کی دو جماعتوں میں آنا یہاں سے ٹوٹ کر داعش کی تلاش میں نکل جانا یہ سب الٹ پھیر کیا ہے؟ یہ تین جماعتوں کا خاموش ٹرائیکا کیا اتنی سی بات سمجھانے کیلئے کم ہے کہ فکر کی موجودگی کیسی کیسی ہم آہنگیوں کو ہوا دے رہی ہے؟ اگر ریاست نے منطقی قضیوں سے پاک بیانیہ دینے میں ایک برس کی مزید تاخیر بھی کردی تو یہ فکری ہم آہنگیاں کمر توڑ قیامت کی پیش خیمہ ثابت ہوں گیں۔ میرے منہ میں خاک ڈال لیجیئے، مگر جو بات ہے، سو وہ ہے۔ کیا کیجیئے۔

اپنے کہے پہ کوئی اصرار نہیں۔ غلطی کا احتمال موجود ہے، مگر یہاں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ مشاہدے اور تجربے کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ مشاہدہ ایک بدیہی امر ہے۔ منطق کا قانون یہ ہے کہ بدیہی امر کسی دلیل کا محتاج نہیں ہوتا۔ اپنے مشاہد ے کو ہم آسان کئے دیتے ہیں تاکہ جھٹلانے میں کچھ تو مشکل پیش آئے۔ کل کے ہی واقعے پہ ٹسوے بہانے والوں کی ایک فہرست بنا لیجیئے۔ ان لوگوں کو ایک طرف کر دیجئے جن کی مذمتیں اگر مگر کی چاند ماریوں سے پاک ہیں۔ جو بچ گئے ان پہ اگر ایک گہری نگاہ ڈال لیں تو آپ کو واضح نظر آجائے گا کہ ان میں وہ لوگ بھی مذمت کر رہے ہیں جو اس گھڑی کے منتظر ہیں جب خراسان کی سرحدوں سے گھوڑوں پہ سوار گنجوں کا ایک لشکر دھول اڑاتا ہوا آئے گا۔ یہ تعداد میں ناقابلِ یقین حد پہ کھڑے ہیں۔ ان کے سامنے ایک سوال رکھ دیجئے کہ آپ طالبان کے حالیہ حملے کی مذمت کیوں کرتے ہیں۔ جواب کچھ یوں ہوگا کہ’صاحب بچوں کو قتل کرنا درس گاہوں پہ چڑھ دوڑنا بے گناہوں کے گلے کاٹنا قطعا کوئی جہاد نہیں‘۔ اس جواب کا مفہومِ مخالف کیا بنتا ہے؟ آپ بہتر جانتے ہیں مگر ہم وضا حت کئے دیتے ہیں۔ مفہوم یہ بنتا ہے کہ ’صاحب جہاد تو یہ ہے کہ قحبہ خانوں پہ حملے کیجیئے جی ایچ کیو کا رخ کیجئے تھانوں کو نشانہ بنا یئے حکومتی املاک کو دھواں کیجیے سینیما گھروں کو آگ لگایئے فحاشی و عریانی کے اڈے چلا نے والوں کے گلے کاٹئے“۔ میرے مقدمے میں اب بھی کہیں جھول دکھا ئی پڑ جائے تو پھر ایک کام اور کر دیجیے۔ اس سماج کے سامنے ایک سوال رکھ دیجئے کہ ممتاز قادری کا سلمان تاثیر کو قتل کرنا درست تھا کہ غلط؟ میرا ایمان ہے کہ یہ سوال دودھ کو پانی سے الگ کرنے کو کافی ہوجائے گا۔

مسئلہ ان تعلیمی اداروں کا نہیں جہاں دہشت گردوں کو اسلحے کی تربیت دی گئی۔ مسئلہ وہ ادارے اور جماعتیں ہیں جن کی فکر اسلحہ اٹھانے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ دل بہلانے کو تو کچھ جماعتیں کاالعدم ہو جائیں گی مگر جو جماعتیں کالوجود ہیں ان کی فکری تباہ کاریوں سے کیسے نمٹیں گے۔ بات یہ ہے کہ بیانیہ ہی بیانیئے کو کاٹ سکتا ہے اور یہ کہ بیانیہ ریاست کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ ریاست نے سید مودودی کا بیانیہ آزما لیا باچا خان کا بیانیہ بھی آزما کر دیکھ لے۔باچا خان کے بیانیئے کو فروغ دینے والے دانشکدوں کو کل انگریز سرکار نے جلا کر خاکستر کر دیا تھا اور آج انہی دانشکدوں میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر خون تھوکا گیا ہے۔ سوچئے کہ تعلیمی اداروں پہ ہی کیوں حملہ آور ہیں؟ اسکول کو ہی بموں سے کیوں اڑاتے ہیں؟ پھر عین اس وقت کہ باچا خان کی برسی پہ شعرا گلے کنکھار رہے تھے، باچا خان یونیورسٹی کی طنابیں کیوں ادھیڑ دی گئیں؟کیونکہ یہاں باچا خان کی فکر پلتی ہے۔ وہ فکر جس نے ہمیں سمجھایا تھا کہ سیاست انسان اور انسان کے بیچ رابطے کا ذریعہ ہے جبکہ مذہب انسان اور خدا کے بیچ رابطے کا ذریعہ ہے دونوں کو ایک دوسرے الگ نہ کیا گیا تو مذہب اور سیاست دونوں کے حصے میں رسوائیاں آئیں گی۔ یہ جو اب ہم سمیٹ رہے ہیں یہ کیا ہے؟ ہم افغان جہاد کے وہ کھٹے میٹھے ثمرات بھی بھگت چکے جس کی خبر باچا خان نے کردی تھی۔ مملکت ضیا داد پاکستان کے وہ نتائج بھی دیکھ چکے جو اپنے ظہور سے پہلے ہی باچا خان کو بے چین کئے ہوئے تھے۔ ساحل پہ کھڑے غافل کو موجِ حوادث کے اور کتنے تھپیڑے درکار ہیں؟ ریاست اپنا ہاتھ بڑھائے کہ باچا خانیت کا چراغ تنہا ہواوں کی زد پہ ہے۔ یہی بیانیہ ہنستے بستے سماج کی ضمانت دے سکتا ہے اگر سر پہ ریاست کا سایہ پڑ جائے۔ ایسا ہوجائے تو ٹیڑھی کمر خود کڑی کمان کا تیر ہوجائے گی۔ بانسریاں جلا کر بھسم کر دینے والے جنگجو خود منہ پہ بندوق کی نال رکھ کر بانسری بجائیں گے۔ مرنے کی بجائے وہ زندہ رہنے پہ غور کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments