کیا آپ بھی دانائی کی تلاش میں ہیں ؟


مجھے نوجوانی کے وہ دن یاد ہیں جب میرے شاعر چچا عارفؔ عبدالمتین ہم سے ملنے لاہور سے پشاور تشریف لائے تھے۔ ایک شام وہ مجھے پشاور صدر کے گرینز ہوٹل لے گئے۔ انہوں نے میرے لیے چائے اور کریم رولز منگوائے اور مجھ سے ایسا مکالمہ کیا جیسے ایک ادیب دوسرے ادیب کے ساتھ کرتا ہے۔ زندگی میں پہلے کبھی کسی نے مجھ سے ایسا ادبی اور فلسفیانہ مکالمہ نہیں کیا تھا۔ میں اس شام بہت خوش تھا۔ میرے چچا نے فرمایا ’ بیٹا! آپ کی امی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نہ صرف غزلیں، نظمیں اور افسانے لکھتے ہیں بلکہ مذہب، فلسفہ اور نفسیات کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے بھی ہیں۔ آپ نے اس مطالعہ سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟‘ میں نے چچا جان سے کہا کہ میں نے چند سالوں کے غور و فکر کے بعد روایت سے بغاوت کر دی ہے۔

میرے شاعر اور دانشور چچا مسکرائے اور کہنے لگے ’کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر قوم اور ہر عہد میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پہلا گروہ روایتی اکثریت کا ہوتا ہے جو ساری عمر روایت کی شاہراہ پر اور دوسرا گروہ تخلیقی اقلیت کا ہوتا ہے جو اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتا رہتا ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ ایک نسل کی پگڈنڈیاں اگلی نسل کی شاہرائیں بن جاتی ہیں۔‘

عارف چچا کہنے لگے بیٹا آپ تخلیقی اقلیت کا حصہ ہیں۔ اس اقلیت میں شاعر، ادیب، صوفی، فنکار، سائنسدان اور دانشور سبھی شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ اقلیت روایتی اکثریت میں گھری ہوتی ہے اس لیے اس اقلیت کو اپنے آدرشوں کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

پھر عارف چچا نے کہا کہ روایت آپ کی پہلی منزل تھی اور بغاوت دوسری منزل اب آپ تیسری منزل کی طرف سفر کر رہے ہیں اور وہ منزل دانائی کی ہے۔ دانائی کی تلاش کے لیے آپ کو ساری دنیا کے ادیبوں، فلاسفروں اور دانشوروں کی تخلیقات کا مطالعہ اور ان کے نظریات پر غور و فکر کرنا چاہیے تا کہ آپ انسانی سوچ کے ارتقا کو بہتر سمجھ سکیں۔

چانچہ پچھلے چالیس برس سے میں ساری دنیا کے ادیبوں اور دانشوروں کی خیالات اور نظریات کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ پچھلے سال جب میرے ادیب اور طببیب دوست ڈاکٹر بلند قبال سے اس موضوع پر تبادلہِ خیال ہوا تو میں نے انہیں ایک ٹی وی پروگرام کا مشورہ دیا۔ انہوں نے CANADA ONE TV کے پروڈیوسر بدر منیر چودھری اور فنکار عامر اختر سے مشورہ کیا تو انہوں نے ہمیں اپنے ٹی وی پر خیر مقدم کہا۔ ہم نے اپنے پروگرام کا نام IN SEARCH OF WISDOM رکھا۔ یہ پروگرام پچھلے چند مہینوں سے پہلے کینیڈا ون ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے پھر وہ فیس بک پر جاتا ہے اور آخر میں بلند اقبال اسے یوٹیوب پر لگا دیتے ہیں۔ پچھلے سات مہینوں میں اس پروگرام کے دیکھنے والوں کی تعداد سات گنا بڑھ گئی ہے۔ اس پروگرام کو دیکھ کر لوگ ان دانشوروں اور فلاسفروں کی کتابیں خریدتے ہیں جو ہمارے مکالمے کا موضوع ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ناظرین روایت کی دیواروں سے باہر دیکھ سکیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ

؎ اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا

اب تک ہم اس پروگرام ے 35 قسطیں دکھا چکے ہیں۔ ہم نے پہلی قسط میں مندرجہ ذیل پانچ سوال پوچھے تھے
1۔ سچ کیا ہے؟
2۔ دانائی کس کو کہتے ہیں؟
3۔ ساری دنیا کے انسان اتنے دکھی کیوں ہیں؟
4۔ انسان اپنے دکھوں کو سکھوں میں کیسے بدل سکتے ہیں؟
5۔ انسان اس کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ کیسے قائم کر سکتے ہیں؟

ہم نے ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے اپنے پروگراموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلے حصے میں ہم نے قدیم دانشوروں پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اس حصے میں ہم نے چار روایتوں پر تبادلہِ خیال کیا۔

پہلی روایت چین کی کنفیوشس اور لاؤزو کی انسان دوستی کی روایت ہے۔ ان دونوں فلاسفروں نے ایک بہتر انسان بننے کے لیے اپنے فلسفے میں کبھی کسی خدا، مذہب، آسمانی کتاب، قیامت اور جنت دوزخ کا ذکر نہیں کیا۔ کنفیوشس نے انسانیت کو سنہرا اصول دیا جو مختلف مذاہب نے GOLDEN RULE سمجھ کر اپنا لیا۔ اس اصول کے مطابق انسانوں کو دوسروں سے ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے انسان ان کے ساتھ کریں۔ لاؤ زو نے کہا کہ انسان جتنا فطرت کے قریب ہوں گے وہ اتنے ہی سکھی ہوں گے۔

دوسری روایت ہندوستان کی بدھا اور مہاویرا کی روحانیت کی روایت ہے۔ اس روایت میں انسان جتنا اپنی روح کی گہرائیوں میں اترتا ہے اتنا ہی دکھوں سے نجات پاتا ہے اور معرفت کی منزلیں طے کرتا ہے۔ بدھا فرماتے تھے کہ انسان کا اپنا تجربہ اس کا سب سے بڑا استاد ہے۔

تیسری روایت ایران کی زرتشت کی مذہبی روایت ہے۔ زرتشت نے جو ایک خدا، وحی اور جنت دوزخ کا تصور پیش کیا وہ مشرقِ وسطیٰ میں بہت مقبول ہوا۔
چوتھی روایت یونان کی سقراط، بقراط، ارسطو اور افلاطون کی روایت ہے۔ اس روایت نے انسانوں کو منطقی سوچ سے فطرت کو تسخیر کرنے قوانینِ فطرت کو جاننے کی دعوت دی اور فلسفے اور سائنس کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔

دوسرے حصے میں ہم نے مسلم فلاسفروں اور دانشوروں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور الکندی، الرازی، الفارابی، بوعلی سینا، غزالی اور ابن رشد کی خدمات کو سراہا۔ ان فلاسفروں نے یونانی فلسفے اور یورپی فلسفے کے درمیان تراجم سے ایک پل تعمیر کیا۔ ان فلاسفروں میں سے جو طببیب تھے انہوں نے طب میں گراں قدر اضافے کیے۔ بو علی سینا کی کتاب القانون فی الطب کئی صدیوں تک ساری دنیا کی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی تھی۔

مسلمانوں کے سنہری دور کے بعد مسلمان تین مختلف روایتوں میں بٹ گئے۔ شدت پسند مسلمانوں نے ابن تیمیہ کی روایت کو اپنایا روحانیت پسند مسلمانوں نے جلال الدین دین رومی کی روایت کو گلے سے لگایا اور فلسفے کے پرستاروں نے محمد اقبال کو سراہا۔

پروگرام کے تیسرے حصے میں ہم نے یورپی فلاسفروں پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ ان فلاسفروں کی خدمات کو ہم نے چار روایتوں میں تقسیم کیا
پہلی روایت چارلز ڈارون کی بائیالوجی کی روایت ہے
دوسری روایت سگمنڈ فرائڈ کی سائیکالوجی کی روایت ہے
تیسری روایت کارل مارکس کی سوشیالوجی کی روایت ہے اور
چوتھی روایت سٹیون ہاکنگ کی کاسمالوجی کی روایت ہے

یہ سب روایتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا کے مختلف سائنسدانوں اور دانشوروں نے انسانی ارتقا میں کیا کردار ادا کیا ہے اور اپنے آدرش کے لیے کیا قربانیاں دی ہیں۔ بعض دانشوروں کو اپنے نظریات کی وجہ سے نظر بند، بعض کو جلاوطن اور بعض کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ بعض ایسے بھی تھے جو روایتی لوگوں کے مظالم کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔

اکیسویں صدی تک آتے آتے انسانوں نے جو دانائی حاصل کی ہے اس میں ان دانشوروں کی کاوشوں اور قربانیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ہپمیں بتایا اور سکھایا ہے کہ ہم سب رنگ، نسل زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر اپنی انفرادی اور اجتماعی سچائیوں کو گلے لگا سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکتے ہین کیونکہ ہم سب انسان ہیں اور ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔

اگر آپ بھی دانائی کی تلاش میں ہیں تو آپ یو ٹیبوب پر خود بھی یہ35 پروگرام دیکھ سکتے ہیں اور اپنے دوستوں سے بھی شیر کر سکتے ہیں۔ میں ڈاکٹر بلند اقبال، بدر منیر چودھری اور عامر اختر کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے دیرینہ خواب کو شرمندہِ تعبیر کرنے میں میری مدد کی اور اب میں وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ’ہم سب‘ کے صفحات میں ہمیشہ میرے انسان دوستی کے آدرشوں کی پزیرائی کی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail