جناب عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی



جناب عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی اگلی روز دو سو ارب ڈالر پاکستان آ جائیں گے، عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی مہنگائی کے دور کا خاتمہ ہو جائے گا، روزانہ 5 ارب کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، انھیں روک کر عوام پر خرچ کیا جائے گا، بیرون ممالک میں چھپائی گئی دولت واپس لائی جائے گی، پاکستان کبھی بھی بھیک نہیں مانگے گا، ہم عوام کے پیسے عوام پر لگائیں گے، عوام کے ٹیکس عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے، ہم حکومت کے لیے تیار ہیں ہماری تیاری مکمل ہے، ہمارے پاس پلان موجود ہیں، نیا پاکستان، ایک پاکستان، سب کا پاکستان، تبدیلی، سونامی، عوام کو سستا انصاف ملے گا۔ پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، پاکستان میں یورپ سے لوگ روزگار ڈھونڈنے آئیں گے وغيره وغیرہ۔

یہ تھیں چند مشہور باتیں جو ہمیں موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے میڈیا میں دھرنوں، لاک ڈاؤن اور سیاسی اجتماعات میں ہونے والے خطابات میں سنائی دیتی تھیں، لیکن موجودہ حکومت کو آئے دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، ابھی تک عوام کے لیے ریلیف کے بجائے مہنگائی کا نہ رکنے والا سلسلہ چل رہا ہے۔

حکومت کے جانب سے جلد از جلد ملکی معیشت کے لیے انقلابی اقدامات نظر نہیں آ رہے یا کم از کم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے یہ تاثر بنے کہ حکومت کام کرنے کے موڈ میں ہے، اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری تھا، کیوں دو ماہ تک معیشت کو بے یقینی سے دو چار کر کے رکھا گیا اور بالاآخر آئی ایم ایف جانے کا ارادہ کیا گیا۔

تبدیلی والوں نے آتے ساتھ ہی گیس مہنگی کی، حالاںکہ حکومتی وزرا (جب اپوزیشن میں تھے) نے کہا تھا گیس ملکی پیداوار ہے اسے مزید سستا کرنا چاہیے، لیکن حکومت میں آتے ہی سب سے پہلے گیس مہنگی کردی گئی، جس کا سیدھا اثر عوام پر ہوا۔ تندور والے سے لے کر سی این جی بس میں سفر کرنے والے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گیس پر چلنے والی تمام اشیا مہنگی ہونے جا رہی ہیں، جس کے اثرات آنے والے دنوں میں نظر آئیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سی این جی، پیٹرول سے مہنگی کردی گئی، جس کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا گیا۔ بوجھ سیدھا عوام پر پڑا، ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں پونے چار روپے تک اضافہ کیا جا رہا ہے، جب کہ معاشی ماہرین کے مطابق گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی قطعاً ضرورت نہیں اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے بجائے لائن لاسز پر کنٹرول کر کے عوام پر بوجھ کے بجائے 400 یونٹس سے زائد کے استعمال پر ٹیکسز لگانے چاہیے تھے۔

حکومتی وزرا کے بیانات کی وجہ سے ملکی معیشت کو فائدے کے بجائے نقصانات ہو رہے ہیں، معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی وزرا کے بیانات معاشی بحران کو سنگین بناتے جا رہے ہیں۔ حکومتی وزرا فرماتے ہیں مہنگائی اور روپے کی گراوٹ سابق حکومتوں کی وجہ سے ہے، لیکن عوام کو آدھا سچ بتایا جا رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اگر آج اسٹاک ایکسچینج 50000 پوائنٹس سے 30000 پوائنٹس پر آ گئی ہے، تو اس کا سبب سابق حکومتیں نہیں، بلکہ موجودہ حکومت کی بی یقینی والے اقدامات ہیں جو حکومت میں آتے ساتھ کرنے چاہیے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ حکومت میں آنے کے بعد ٹاسک فورسز بنائی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ روزانہ 5 ارب کرپشن کے نظر ہو جاتے ہیں، کوئی حکومت سے پوچھے کہ دو ماہ میں 5 ارب روپے اگر بچائے تو وہ کہاں ہیں؟ کیوں کہ ملکی خزانے میں اس وقت 8 ارب ڈالر موجود ہیں جس میں سے تقریباً 6 ارب ڈالر کمرشل بنکوں کے ہیں، جب کہ موجودہ حکومت نے چارج سنبھالا تھا، تب ملک میں 24 ارب ڈالر خزانے میں موجود تھے۔

آج بھی عملی اقدامات کے بجائے عوام کو سیاسی بیانات، بھینسوں اور گاڑیوں کی نیلامی، ہیلی کاپٹر میں دورے جیسے بیانات میں الجھا کر رکھا جا رہا ہے، ساتھ ہی سارا بوجھ سابق حکومتوں پر ڈال کر موجودہ حکومت بری الذمہ ہو رہی ہے، موجودہ حکومت کو اپنی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی، اور ایک سمت کا تعین کرنا ہو گا۔ اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی، عوام کو مہنگائی بم سے بچاکر ریلیف دینا ہو گا۔

ایسا نہ ہو کہ چند ماہ کی حکومت جسے ضمنی انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر بھی شکست نصیب ہوئی ہے، اور تھوڑے عرصے میں عوام میں غیر مقبول نظر آنے والی حکومت کے لیے آنے والے بلدیاتی انتخابات کہیں عوامی ریفرنڈم نہ بن جائیں۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch