سب سے بڑا نظریہ اور فلسفہ ہماری اپنی ثقافت ہے



وطن عزیر میں سیاست نے کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں کمپنیوں کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ پاکستان میں بنتی ٹوٹتی سیاسی پارٹیوں اور سیاسی تنظیموں میں اگر تقیسم کی جائے تو ایک طرف ایسا طبقہ ہے ۔جس کے لوگ جو ہر قسم کے سیاسی نظریے اور فلسفے کو بلائے طاق رکھتے ہوئے راتوں رات سیاسی جماعت اور تنظیم کھڑی کرلیتے ہیں۔ علامہ اقبال کا نرگسی شعر ہی ان کی تنظیم یا سیاسی جماعت کیلئے سب سے بڑا نظریہ اور فلسفہ ہوتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پراپرٹی ڈیلرز، کالے دھن والے اور رسہ گیر جیسے افراد ہوتے ہیں۔ جن کی مدد سے چند شریف بندے سیاست کے میدان میں اترتے ہیں۔ ان کا منشور علامہ اقبال کی تعلیمات اور قائد اعظم کے فرمودات ہوتے ہیں۔ قائد اور اقبال کا پاکستان بنانا منزل قرار دی جاتی ہے۔

دوسرا مذہبی طبقہ ہے ۔جو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کی جماعت بناتا ہے۔ انہیں کیسی اور نظریے اور فلسفے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اسلامی نظام، مدینے کی فلاحی ریاست سے آغاز کرتے ہیں۔ عریانی، فحاشی اور مغربی کلچر کی روک تھام بہترین اور مثالی منشور قرار پاتا ہے۔ بوقت ضرورت حق و باطل کے معرکے میں جہاد بھی شامل منشور کر لیا جاتا ہے۔

تیسری قسم کا طبقہ بہت دل چسپ اور علمی و فکری ہے۔ سیاسی جماعت یا تنظیم بنانے کیلئے کیسی نظریہ، فلسفہ اور بیانیے کی ضرورت کو لازم تصور کرتا ہے۔ اس طبقے میں نظریات کی بہتات ہیں۔ اپنے اپنے نظریے کی بنیاد پر سیاسی جماعت یا تنظیم بناتے ہیں۔ تنظیم کی تقیسم در تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ نظریہ امپورٹ کرتے ہیں۔ کام یاب تنظیم وہ کہلاتی ہے۔جس کی جڑت کیسی بیرون ملک شاخ سے یا ہیڈ تنظیم کے ساتھ ہو۔ سالانہ اجتماع میں بیرون ممالک سے قائد کی شرکت زیادہ سود مند ہوتی ہے۔ غیر ملکی اخبارات اور مخصوص رسالوں میں چھپے ہوئے مضامین کے اردو میں تراجم کر کے پاکستان میں تحریک بپا کرنے کا تناظر بناتے ہیں۔ اس طبقہ کی ایک خوبی ہے کہ وہ خود کو سب سے زیادہ عقل مند سمجھتے ہیں۔ ایک دائرے کے اندر گھوم گھوم کر ایسے گول ہوتے ہیں کہ ساری عمر سیدھے نہیں ہو پاتے ہیں۔ بلکہ سیدھے ہونا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ اجنبی اجنبی باتیں کرتے ہیں۔ مزدور کو پرولتاریہ اور سرمایہ دار ی کو بورژوا اور ایک دوسرے کو کامریڈ بولتے ہیں۔ نئی نئی تنظیمیں بنانا فطرت بنی ہوئی ہے۔ امن پسند، ادبی سے، انسانیت سے محبت کرتے ہیں مگر فرد کی اہمیت کے قائل کم ہی ہوتے ہیں۔ انسانیت شاید کوئی اور مخلوق ہے۔ ابھی تک کھوج نہیں مل سکا ہے۔

راقم بھی کئی برس ایسی طبقے کا حصہ رہا ہے۔ کئی تنظیموں کا سفر کرتے ہوئے تھکے ہارے ایک دن پیپلز پارٹی کے مارکسی دانشور اور سیاست دان چودھری منظور سے مل کر واپس مایوسی کے عالم میں گھر جاتے ہوئے، دوست راجا اعجاز سے کہا کہ یار اپنی پارٹی بناتے ہیں۔ گاڑی میں فیصلہ کیا کہ تحریک صوبہ پوٹھوہار بنائی جائے۔ نظریہ کا مرض کب جاتا ہے۔ کچھ دنوں بعد راجا اعجاز کہنے لگے تحریک صوبہ پوٹھوہار کا نظریہ ماڈرن ریشنلزم ہی ٹھیک رہے گا۔ راجا اعجاز کلچرل مائنڈڈ ہیں۔ نظریے کے مرض میں انہیں خود ہی دھکا دیا تھا۔ اب خود ہی نکال باہر بھی کیا ہے۔ سختی سے مسترد کیا۔ نہیں، تحریک صوبہ پوٹھوہار کا نظریہ، پوٹھوہار کی ثقافت، تہذیب و تمدن، شعر خوانی، پوٹھوہاری وسیب، لوک گیت اور پوٹھوہاری اکھان، پوٹھوہار کے بزرگوں، دانشوروں، شاعروں، صحافیوں اور مفکرین کے فرمودات ہوں گے۔ پوٹھوہار کی ثقافت ہی تحریک صوبہ پوٹھوہار کا نظریہ اور فلسفہ ہو گا۔ پوٹھوہاری ثقافت، تہدیب و تمدن ہی سب سے بڑا نظریہ اور فلسفہ ہے۔ اس کے آگے ہر نظریہ، ہر فلسفہ اور ہر بیانیہ ہیچ ہے۔ یہ ہماری دھرتی ہے۔ پوٹھوہار دھرتی کا کارل مارکس میاں محمد بخش آف کھڑی شریف ہیں۔ پیر آف گولڑہ شریف پیر مہر علی شاہ ہیں۔

اگر کچھ اور نظریات کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہمارے پاس پیر وارث شاہ، بلھے شاہ، شاہ حسین، بابا فرید گنج شکر بھی ہیں۔ اگر ہم نے درج ذیل بزرگوں کو چھوڑ کر کیسی غیر کے نظریے اور فلسفہ کو اپنایا، تو پھر ہم سماج میں تشدد ،دہشت گردی، افراتفری اور بے یقینی کو فروغ دینے میں حصہ دار ہوں گے۔ اگر ہم نے اپنی دھرتی کے رسم و رواج اور ثقافت کو اپنایا اور فروغ کیلئے قد م بڑھائے تو ہم محبت، بھائی چارے، رواداری، امن، ترقی اور کام یابی کے امین ہوں گے، کیوں کہ سب سے بڑا نظریہ اور فلسفہ ہماری اپنی ثقافت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).