سندھ حکومت ڈھابے پر چائے پراٹھے سے سرکاری اسکول داخلے تک


ملک خداداد میں نمود و نمائش، کفایت شعاری اور بچت کی بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ جنرل ضیا ء الحق کی بچت اور کفایت شعاری کے نام پر چلائی ہوئی سائیکل ابھی بھی آرکائیو میں محفوظ ہے اسی طرح سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی چھوٹی گاڑی میں سرکاری افسران کو بٹھانے کا شوق پورا کیا اور اب وزیر اعظم عمران خان صاحب کب اس پر عمل درآمد کرواتے ہیں یہ دیکھنا ہوگا۔ جنرل مشرف کی حکومت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے بچوں نے بھی کفایت شعاری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے والد کے گھر وزیر اعظم ہاؤس میں اپنے کھانے کے پیسے خود ادا کیے۔ مگر آج کل سیاستدان سوشل میڈیا دور میں زکوة دینے سے لے کر فوتگی کی تعزیت تک اگر سیلفی لے کر دنیا کو نہ دکھائیں تو سمجھو کچھ ہوا ہی نہیں۔

آج کل پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں کے درمیان سیلفیوں کا سخت مقابلہ چل رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کوہاٹ کے رہنما ضیاء اللہ بنگش نے اپنی بیٹی کو سرکاری اسکول میں داخل کر وا کے خوب داد وصول کی تھی اور موجودہ وزیر اعلیٰ خیبرپختوںخواہ محمود خان نے بھی اعلان کیا ہے کہ بہت جلد ان کے بچے بھی سرکاری اسکول میں ہوں گے ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ بھی میدان میں آئے اور پورا میلہ ہی لوٹ لیا انہوں نے اپنی بیٹی کو حیدر آباد کے ایک سرکاری اسکول میں داخل کروا کے سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک برینکنگ نیوز بن گئے جیسے وزیر صاحب نے کوئی نوبل انعام حاصل کیا ہو۔

وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ نے سرکاری اسکول میں داخل ہونے سے لے کر داخلہ فارم بھرنے تک فل فوٹو اور ویڈیو سیشن کروا کے پاکستان تحریک انصاف کے وزیر داخلہ شہریار آفریدی سمیت دیگر وزیروں اور مشیروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ وزیر صاحب کے سرکاری اسکول میں انٹری سے ایسا لگ رہا تھا کہ وزیر تعلیم سندھ کوئی لال قلعہ فتح کرنے آ رہے ہیں۔ یاد رہے یہ سندھ کے وہی وزیر تعلیم سردار شاہ ہیں جو کچھ دن پہلے ویڈیو سیشن میں ایک استانی کی تذلیل کرتے نظر آئے اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے متحدہ ہندوستان کا ایک وائسرائے غلام عورت کی تذلیل کر رہا ہو۔

وزیر تعلیم سندھ نے اپنی بیٹی اور کچھ رشتے داروں کو سرکاری اسکول میں تو داخل کروا دیا ہے مگر سرکاری اسکول کے اساتذہ کی تو جو جیسے شامت ہی آ گئی ہو۔ جب وزیر صاحب کی بیٹی روزانہ اپنے والد سے اسکول کی شکایات لگائے گی تو ایسے اسکول کا کیا حال ہوگا ساتھ ساتھ دوسرے بچے بھی اس وقت احساس محرومی کا شکار ہوںگے جب اسے دوسرے بچوں سے زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ سرکاری اسکول کی کارکردگی اتنی بھی بری نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔

ملک میں ہزاروں ایسے نام ہیں جنہوں نے ٹاٹ کے اسکولوں میں پڑھ کر ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔ مگر وزیر صاحب کے پروموٹر وزیر تعلیم سندھ کی تعریف میں کچھ زیادہ ہی سرکاری اسکولوں کو بدنام کر رہے ہیں کہ دیکھو سائیں سردار شاہ نے اپنی بچی کو سرکاری اسکول میں ڈال کر اس کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے اور سندھ کی تعلیم کے لیے بڑی قربانی دی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیر صاحب بغیر فوٹو اور ویڈیو سیشن کے اپنی بیٹی کو سرکاری اسکول میں داخل کرواتے تاکہ اسکول کے بچوں سمیت اساتذہ کو بھی پتہ نہ ہوتا کہ وزیر تعلیم کی بچی ایک سرکاری اسکول میں پڑھ رہی ہے۔ مگر ایسے دکھاوے کا کیا فائدہ جس سے سندھ کے تعلیمی نظام میں نہ کوئی بہتری آئے نہ ہی آپ اساتذہ کی عزت کرنا سیکھیں۔

وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ہوں یا پھر مراد علی شاہ کوئی خاص فرق نہیں کارکردگی ایک ہی جیسی ہے۔ قائم علی شاہ کے وزارت اعلیٰ کے دور کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ کے بیٹے مراد علی شاہ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنایا تو کراچی صدر کے ہوٹل میں چائے اور پراٹھا کھا کر سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے تبدیلی کی نوید سنا دی کہ وہ عوام میں سے ہی ہیں اور بہت جلد ہی عوام میں گھل مل جائیں گے مگر وقت نےثابت کر دکھایا کہ مراد علی شاہ تو عام عوام کو اپنی گاڑیوں کی دھول بھی نہیں چٹواتے جب وزیر اعلیٰ صاحب سندھ کے دوروں پر ہوتے ہیں تو کس مائی کے لعل کی مجال ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل سکے۔ چاہے ایمبولنس میں کوئی مریض ہو یا کسی کا بچہ ہونے والا ہو چاہے ہسپتال جانے سے پہلے ہی وہ دم توڑ دے مگر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پروٹو کول میں چڑیا پر بھی نہیں مار سکتی۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں اگر ایگرو پلس کے جوتے بانٹ کر سیلفی اور ویڈیو سیشن میں لوگوں کی خدمت کی جاتی ہے تو دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے عہدیدار، ان کے رشتے دار سیلفی اور ویڈیو سیشن میں لینڈ مافیا کی طرف سے دی گئی زکوة میں سولر پینل اور سلائی مشینوں پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ آج جو غریب عوام کے صدقہ و خیرات کی اشیاء پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ عوام کی خدمت سلیفی بنانے یا پھر ویڈیو سیشن سے نہیں ہوتی نہ ہی چائے پراٹھا کھانے سے نی اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کروانے سے ہوتی ہے بلکہ عوام کی خدمت ان کے مسائل حل کر کے ان کے دلوں میں جگہ بنا کے اور ان کی بنیادی خوشیوں کی ضمانت دے کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).