آؤ اور نئے پاکستان کا سواد لو!


میرے اک حاضر سروس دوست نئے پاکستان کے حامی ہیں۔ بہت بڑے حامی ہیں۔ اتنے بڑے حامی ہیں کہ آپس کے تقریبا 15 سال پرانے تعلق کو بھی قریب قریب سیاست کی نذر کر ہی ڈالا تھا کہ اگر اک تیسرا دوست درمیان میں آ کر انہیں ٹھنڈا میٹھا نہ کرتا تو۔ ان کی حب الوطنی ایسی ہے کہ ٹائیٹینیم کو بھی پگھلا ڈالے۔

چند دن قبل اپنے انہی صلح کروانے والے تیسرے دوست کی بابت معلوم ہوا کہ میرے شدید محب الوطن دوست یورپ کے اک ملک کی امیگریشن کے حصول میں کامیاب ہو چکے ہیں اور اپنے خاندان کو وہاں شفٹ کر کے پاکستان میں واپس آ کر، اپنی باقی ماندہ ملازمت پوری کرتے ہوئے، نئے پاکستان کے فضائل بھی بیان کر رہے ہیں۔

زمین پر انسانی زندگی کے سفر میں، میں چونکہ کوئی سکیم، بڑا پلان، گرڈ، یا تشریحاتی مقدر و تقدیر کی ہیرا پھیریاں نہیں مانتا، اور زمین پر انسانی زندگی کو انسان کے اپنے ہی کیے گئے فیصلوں اور ان کے نتائج کا تسلسل ہی دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے یورپ ہجرت کر جانے سے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ مزہ یہ آیا کہ بہترین سکولنگ، اعلی تعلیم اور پھر بیرون ملک پڑھائی کے علاوہ اک شان اور ٹھاٹھ والی افسری بھی ان کے اندر اس بے دلیلے اور بے سمتے پاکستانی کو ختم نہ کر سکی کہ جن کی اکثریت وطن عزیز کے معاشرے میں ”چھالاں“ مارتے، اِدھر سے اُدھر اور پھر اُدھر سے اِدھر پھدکتی پھرتی ہے۔

یہ بے دلیلی اور بے سمتی عین اس پلان اور پروگرام کے مطابق ہے جو پاکستانی قوم کے مکھن کی تشکیل ہے۔ یہ ہڑبونگیت، شورش، جذباتیت پر بنیاد کرتی بے عقلیت اور اک دیومالائی کیفیت میں اپنے آپ کو، اپنے اسلامی معاشرے کو، اپنے وطن کو، اپنے وطن کی ریاست کو اور پھر چند ریاستی اداروں اور اہلکاروں کو باقی تمام دنیا و کائنات سے افضل اور بہترین جاننے کی اک افیونی چُسی ہے جس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا، جو نکل رہا ہے۔

اک آئینی ادارے کے اک کمپیوٹر سسٹم کو رات کے بارہ بجے بند کر دینے والی اک پراسرار کال، جو صرف اور صرف اک ”کیلوی ریاست“ میں ہی ممکن ہو سکتی ہے، کے نتیجے میں بن جانے والی حکومت نے بہت لطف فراہم کر رکھا ہے۔ ہاں بہرحال، اک دلی افسوس یہ ہے کہ لطف لینے کا یہ پراسیس کاش کہ آج سے بارہ سال قبل اس وقت ہی شروع ہو جاتا، جب راقم نے اپنی ذات میں خِرد کا سفر شروع کیا تھا، تو بہت سارے جذبات اور طاقت بچ رہتی، اور مزے کا مزہ بھی رہتا۔

زمین پر موجود انسانی زندگی اور نعروں، دعاؤں اور جذباتی بڑھکوں پر چلتی ہوتی تو مبشر اکرم آج کسی بحریہ نہ سہی، خشکی ٹاؤن کا مالک ہوتا۔ اور کچھ نہ ہوتا تو لاہور کے اک بیوٹی پارلر سے چلا ہوا، مگر آج کے دن کا اک کامیاب ”صحافی“ ہوتا اور دو ذاتی جہازوں کا مالک بھی ہوتا۔ یہی پیغام انقلابی حکومت کو لانے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے بھی نام ہے۔

ہاں مگر، اپنی حکومت کے ساٹھویں دن اور عمدہ مزاح فراہم کرنے کے باوجود بھی ذہینت اور اپروچ وہی نعرہ بازی والی ہے تو درخواست کرتا ہوں کہ دو سو افراد کی وہ ٹیم جو قائدِ انقلاب نے بائیس سال میں تیار کی تھی، ان کو کام میں لائیں اور پاکستان کے بڑے بڑے مسائل حل فرمائیں۔

اور اگر نعرہ بازی سے ہٹ کر، کچھ دلیل، عقل، فہم کی بات کرنی ہے تو کہتا ہوں کہ آپ کی حکومت کے پاس کل 1825 دن تھے کام کرنے کے، جس میں سے ٹھیک آج، 60 دن گزر چکے ہیں۔ اب آپ کے پاس 1765 دن ہیں۔ ان 1765 دنوں میں، آپ کے ہی کیے گئے اعلانات کا کچھ حساب کتاب ایسے بنتا ہے :

۔ عمران خان نیازی صاحب نے پاکستان کو صاف لیٹرینز دینے کا اک معجزاتی پروگرام شروع کرنے کے اعلان کیا تھا۔ یہ پروگرامِ لیٹریانہ کہاں تک پہنچا؟ ڈان کی 23 نومبر 2017 کی اک رپورٹ کے مطابق، 37 فیصد، یعنی 81040000 (آٹھ کروڑ دس لاکھ چالیس ہزار) پاکستانیوں کے پاس لیٹرینیں نہیں۔ یاد رہے کہ اگلے 1765 دنوں میں آپ کو روزانہ کی بنیاد پر اوسطا 45915 افراد کو لیٹرین کی سہولت مہیا کرنا ہے۔

۔ آپ کو 10 ارب (10 عرب نہیں) درخت بھی لگانے ہیں۔ یہ تعداد، روزانہ کی بنیاد پر 5665722 (تقریباً ساڑھے چھپن لاکھ) درخت بنتی ہے۔ اس تعداد میں درخت لگانے ہیں یا پانچ برس بعد 10 عربوں کو ہی دکھلا کر پاکستان سے ہاسیاں کھیڈیاں کرنا ہیں؟

۔ نئے پاکستان کے خوددار وزیرِ خزانہ نے پانچ سالوں میں 10000000 (ایک کروڑ) ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر یہ ہندسہ 5666 ملازمتوں پر آتا ہے۔ بسم اللہ کیجیے نا۔

۔ 50 لاکھ گھر بھی بنانے ہیں، محترمین۔ 50 لاکھ! یہ بنتے ہیں 2833 گھر روزانہ۔ یہ سب سے دلچسپ لطیفہ ہے۔ اور اس کے حساب کتاب کے لیے اک پورا مضمون الگ سے چاہیے۔ مگر فی الحال تو آپ اس بات سے ہی خوش ہوں کہ نیا پاکستان ہاؤزنگ فاؤنڈیشن نے 250 روپے کا جو فارم بنا رکھا ہے، وہ کوئی 60000 فروخت ہو چکا ہے۔ ریاستِ پاکستان کو 15000000 (ڈیڑھ کروڑ) روپے حاصل ہو چکے ہیں۔ اب یقینا دیامیر بھاشا کے علاوہ داسو ڈیم بھی بن جائیں گے۔

۔ بیرون ملک پاکستانیوں، جن میں اکثریت بارلے پاکستانیوں کی ہے، نے کتنے ارب ڈالر ابھی تک بھیجے ہیں؟ دنیا کی جانے جانی والی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اک قائدِ انقلاب نے ہر ایک سے ہزار ہزار ڈالر مانگا۔ سیٹھ میڈیا نے حسبِ توفیق کاسہ لیسی بھی کی۔ نتیجہ کیا رہا؟

اوپر بیان کیے گئے انقلابی شانداریت کے ماڈلز کے علاوہ، آپ مندرجہ ذیل معاملات میں بھی سواد لینے میں آزاد ہیں:

ڈی پی او پاک پتن، ڈی سی چکوال، گورنر سندھ کا 52 گاڑیوں کے قافلہ میں تھر کا دورہ، 55 روپے فی کلومیٹر میں ہیلی کاپٹر کی سواری، شیرُو کی ہمراہی، موٹو کے روحانی آنسو، دہری شہریت والے پاکستانیوں کی آئینی عہدوں پر تعیناتی، بنی گالہ پر غیر قانونی محل کی تعمیر اور اس کے جعلی این او سی کے باوجود ”ریگولرائز“ کروانے کا حکم، غریبوں کی کچی بستیوں کی پامالی، بجلی، گیس کی مہنگائی کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر پروٹوکول کی وجہ سے عوام کی خواری اور آئی جی پنجاب کی تبدیلی پر درانی صاحب کا استعفی وغیرہ۔
تمام احباب کو دعوتِ عام ہے کہ آؤ، اور نئے پاکستان کا سواد لو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).