پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد پسندی



1992 کے وسط یا اختتام پر 72 جہادی تنظیمیں پنجاب میں کام کر رہی تھیں۔ تاہم بعد میں بالخصوص نائن الیون کے بعد ان تنظیموں نے بڑی تنظیموں کی صورت اختیار کر لی۔ اس طرح اس وقت چھ یا سات بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ جو مختلف اسلامی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھتی ہیں یعنی وہابی، دیوبندی، بریلوی اور فقہ جعفریہ۔

1۔ دیوبندی
ان کی جماعت کا مطمع نظر مسلمانوں کو صوفی مذہب سے الگ کرنا تھا۔ یہی تنظیم تھی کہ جس نے 1980 کی دھائی میں سوویت فوجوں کے ساتھ افغانستان میں جہاد شروع کیا۔ حرکت الجہاد الاسلامی (HUJI) تنظیم نے افغانستان میں جہاد کیاتو پاکستان میں سپاہ صحابہ پاکستان (SSP) کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا مقصد ایرانی انقلاب (1979) کے بڑھتے اثرات کو روکنا تھا۔ مولانا حق نواز جھنگوی نے شیعت کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کیا، 1980 کی دھائی میں افغانستان کے جہاد میں حصہ لیا۔ 1990 کی دھائی کے وسط میں سپاہ ِ صحابہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ لشکر جھنگوی جس کو القاعد? کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری جیش محمد ہے جو 2000 میں ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بنائی اور اس کی فنڈنگ القاعدہ نے کی۔ سپاہ صحابہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ تھی جس کے رہنما اعظم طارق تین بار قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ سعودی عرب سے کینیڈا تک 17 ممالک میں اس کے رجسٹرڈ ورکرز کی تعداد ایک لاکھ تھی اور ملک کے 74 اضلاع میں اس کا کنٹرول تھا۔
2۔ اہلِ حدیث / وہابی
(یہ سلفی بھی کہلاتے ہیں)۔ یہ بھی اسلامی بنیاد پرست طریقوں کو مانتے ہیں اور سعودیوں کے قریب ہیں۔بالخصوص 1979 کے بعد سے سعودی عربیہ ایران کے بڑھتے ہوئے انقلابی اثرات کے اثر زائل کرنے میں اپنے ساتھی کا متلاشی تھا۔ 1980 کی دھائی میں سعودی عرب نے افغانستان میں پیسے دینے شروع کیے تاکہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے۔ سعودی زکوۃ کی رقم سے 1990 کی دھائی میں پاکستان میں لشکرِ طیبہ (LeT) کا مرکز قائم کیا گیا۔ ان کا گروپ کشمیر میں جماعت الدعوہ ہے یعنی (JuD)۔ یہ دونوں گروپس وسط پنجاب اور شمالی پنجاب کے شہری، امیر اور تعلیم یافتہ علاقوں میں کام کرتے ہیں۔ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ کے محض اسلام آباد، راولپنڈی میں ہی سو سے زیادہ مدرسے ہیں۔
3۔ بریلوی ملٹنٹ
یہ گروہ جارحانہ جہاد کی طرف مائل نہ ہونے کے سبب سعودی پیسوں سے محروم رہا۔ دیوبندیوں کے حملوں کے خلاف مولانا فضل کریم نے ایک ملٹنٹ گروپ تشکیل دیا تاکہ اپنی حفاظت ہو سکے۔
4۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
یہ ایک شیعہ ملٹنٹ گروپ ہے جس کا آغاز 1980 کے ابتدائی عشرہ میں ہوا۔ اس کا محرک ایرانی انقلاب تھا۔ اور گروپ کی مالی اعانت تہران سے ہوئی۔ اس گروپ کے بانی علامہ ساجد نقوی تھے۔ اس کے بعد 1990 کی دھائی میں سپاہ محمد کے نام سے ایک اور گروپ تشکیل پایا جو پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں سنیوں کی اموات میں ملوث تھا۔ تاہم تعداد میں کم ہونے کے باعث اموات بڑے پیمانے پر نہیں ہوئیں۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اپنے مقالہ میں بتایا ہے کہ کس طرح یہ جہادی تنظیمیں سماجی اور سیاسی نظام میں عمل دخل رکھتی ہیں۔ ان کا یہ طریق کار مرحلہ وار ہوتا ہے۔
1۔ ایسی فضا کی تشکیل کہ جو کسی ایک نظریے کو بڑھاتی ہے اور سماج کے مختلف مذاہب کے مل جل کر رہنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اس پہلے مرحلے کو ابتداء یا (Pre Radicatism Stage) کہتے ہیں۔ اس میں مذہب کو سماجی اور سیاسی نظاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
2۔ لوگوں کو خانوں میں تقسیم کر دینا۔ اس مرحلہ میں لوگوں کا پرتشدد ہونا ضروری نہیں۔ لیکن ان کا لوگوں کے لئے تصور بدلنے لگتا ہے۔ وہ مذہبی تفریق کی وجہ سے دوسروں کو رد کرنے لگتے ہیں اور نفسیاتی طور پر لوگوں کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں کسی فرد، معاشرہ، گروپ یا قوم کے خلاف ہو سکتی ہیں۔ اس مرحلہ کو مخفی جارحیت یا (Latan Radicatism) کہا جاتا ہے
3۔ تیسرا مرحلہ ایکٹو جارحیت ہے۔ جس میں افراد، گروپ باقاعدہ گفتگو یا مناظرہ میں دلائل دیتے ہیں اور دوسروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہی وہ اسٹیج ہے کہ کسی خاص گروپ کے خلاف تشدد کی فضا ہموار ہوتی ہے اور اپنا بنیادی کردار ادا کیا جاتا ہے۔
تشدد کے طریقہ کار کو پنپنے میں جو عوامل بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اس میں غربت، حکومتی اداروں کی نا اہلی، ناقص نظامِ تعلیم، ذرائع کی نامنصفانہ تقسیم وغیرہ ہیں۔ جو منفی نظریات کی پرورش کرتے ہیں لیکن سیاسی اور جغرافیائی حالات اس عمل کی رفتار کو تیز تر کر دیتے ہیں۔
شیعوں کے خلاف سپاہ صحابہ کی پشت پناہی پر 1980 کی دھائی میں تعصب کا زہر اگلنے کے لئے ملاؤں نے دیوبندی مدرسوں کو فروغ دیا۔ امکانات غالب ہیں کہ شیعوں کو دیوبندی فکر اور وہابیت سے ختم کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات بھی تحقیق کا حصہ ہے کہ کس طرح افغانستان جا کر لڑنے والے طالبان نے جنگ کے بعد اپنی خدمات پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کو پیش کیں جو ملٹری، انٹیلی جنس اور جہادیوں کے مشترکہ مفادات کے سبب اچھی گٹھ جوڑ ثابت ہوئی ہیں۔ اس طرح جہادی گروپ کی جارحیت اب محض سیاسی ہی نہیں بلکہ مادی حصول کا ذریعہ بھی ہے کہ نئی سرمایہ دار بزنس برادری بھی ان سے تعاون کر رہی ہے۔ حتی کہ اغوا اور تاوان جیسے کاموں میں بھی جہادی ملوث ہیں اور ان کے مدرسے بھی تجارتی اداروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

جارحیت کو روکنے کے لیے تجاویز
ریاستی سطح پر کام :ریاست کا کردار اہم ہے۔اس کو چلانے والے ادارے سوچ میں بنیادی تبدیلی کا کام انجام دے سکتے ہیں۔مثلا
1۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی، جامعات خود مختار اور اس کا نصاب سائنسی بنیاد پر ہو۔
2 ۔مدرسوں کو مساجد سے جدا ہو کر رجسٹرڈ کرانا ضروری ہو اور مدارس کی فنڈنگ کی جانچ پڑتال ہو۔
3۔ تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول مدرسوں کا محاسبہ ہو۔
4۔ پولیس اور عدلیہ کا نظام بہتر ہو۔ پولیس کا دہشت گردوں سے نپٹنے کا طریقہ
کار وضع ہو اور ممکنہ دہشت گردی پر بھی نظر ہو۔
5۔ ہتھیار چھین لیے جائیں۔
6۔ عدلیہ کا ناقص نظام بہتر کرنے کے لیے بین الاقوامی کمیونٹی ان کی تربیت کرے اور ججوں کو گائیڈ کر کے اصول وضع کریں۔
7۔ شاہدین کی حفاظت کا انتظام ہو۔
سماجی طور پر اقدامات :
1۔ عوام کو تشدد کے جوابی اقدام کے سلسلے میں مذہبی تعصب کے بارے میں بتایا جائے۔
2۔ ریڈیو اور ٹی وی پر گفتگو کے پروگرام ہوں جو عوام میں اتحاد پیدا کریں۔
3۔ چھوٹے اسٹڈی سرکل تشکیل دیے جائیں جو آزاد خیال عالم اور مسلمانوں کے درمیان گفتگو کریں اور اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2