چھوٹے صوبے والے کچھ نہیں پنجاب پاکستان ہے، ضیا حکومت کا نظریہ


صوبائی کونسل کے ایک اجلاس کے دوران خان عبدالولی خان بھی لاہور آئے ہوئے تھے اور حسب معمول ہمارے ہاں ٹھہرے تھے۔ ہر جگہ پران کا تعاقت کرنے کے لیے پولیس کی ایک جیپ ہمارے گیٹ کے باہر کھڑی رہتی۔ صوبائی کونسل کی کارروائی کے لیے تھی۔ اجلاس کے دوسرے روز، جبکہ ولی خان شہر میں ہی موجود تھے، فخر اجلاس اختیا م پذیر ہونے سے پہلے ہی اسلام آباد گئے۔ جب ہم باہر آ رہے تھے تو میں ایک کولیگ کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی۔ اتنے میں گورنر مارشلِ لاء ایڈمنسٹر یٹر کے ملٹر ی سیکرٹری میرے پاس آئے اور کہا کہ گورنر اپنے چیمبر میں بیٹھے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ جب میں اندر داخل ہوئی تو سابق ہوئی وزیر اعلیٰ کمیٹی روم میں گورنر لمبی سی میز کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ ان کے ساتھ ان کے سیکرٹری ( ایک سول سرونٹ ) بھی تھے۔

”آہ بیگم عابدہ، آئیے تشریف رکھیے۔ میں عجیب و غریب صورت حال کے اس معاملے کو آپ کی لاہور والی رہائش گاہ سے باہر رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے وہاں پولیس کی دو جیپیں لگا رکھی ہیں، ایک آپ کے شوہر وزیر کی گاڑی کے ساتھ چلنے کے لیے اور دوسری ایک اپوزیشن راہنما ولی خان کے تعاقب کے لیے جو مجھے یقین ہے کہ آپ کے گھر رہائش پذیر ہے۔ وہ بیگم عابدہ کے لیے نہیں ہے، بالکل نہیں۔ “

” جنرل صاحب، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ فخر اور میں میری والدہ کے ساتھ رہتے ہیں اور خان عبدالولی خان ان کے معزز مہمان ہیں۔ وہ اور ان کی بیوی جب بھی لاہور آتے ہیں تو ہمارے پاس ہی قیام کرتے ہیں، اور اچھی بات ہے کہ انہوں نے فخر کے ایک فوجی حکومت کی کابینہ میں وزیر ہونے کی پروا نہیں کی، حالانکہ وہ ایک کٹر جمہوریت پسند ہونے کے ناطے اس کے اصولی مخالف ہیں۔ “

غلام جیلانی خان نے روکھے لہجے میں کہا، ” دیکھیں بیگم عابدہ، میں نے سرحد، حتیٰ کہ سندھ اور بلوچستان میں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ لوگ کچھ بھی نہیں۔ یہ چھوٹے صوبے والے۔ پنجاب پاکستان ہے، یہ بات کبھی نہ بھولیں۔ “ انہوں نے زور سے مُکا میز پر مارا۔

مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ میں نے سیکرٹری کی طرف دیکھا جس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ میرے غصے کی آگ بھڑک اٹھی، میرا شارٹ فیوز پوری طرح اور حقیقی معنوں میں جل اٹھا۔ ”پاکستان بلوچستان اور سرحد اور سندھ اور پنجاب ہے۔ جنرل صاحب، کسی کو بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہیے، کم سے کم مشرقی پاکستان میں ہونے والے واقعات کے بعد تو ہرگز نہیں۔ “ میری آواز بلند اور دو ٹوک تھی اور میں جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔

جیلانی نے بے یقینی کے انداز میں میری طرف دیکھا اور جب میں کمرے سے باہر جا رہی تھی تو ان کے گلابی دہن کے کناروں سے جھاگ نکلتی ہوئی معلوم ہوئی۔ میں نے تقریباً بھاگتے ہوئے وسیع زینہ عبور کیا اور اپنی کار میں جا بیٹھی۔ میرا جسم غصے اور خوف کے مارے کانپ رہا تھا۔ میں جانتی تھی کہ ہم مارشل لاء کے ماتحت ہیں اور اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔

جب میں نے والدہ کو بتایا تو انہوں نے مجھے سینے سے لگایا اور کہا کہ انہیں میرے پر فخر ہے، لیکن خبردار بھی کیا کہ اب کے بعد میں خطرناک راستے پر چل پڑی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج میں چائنا کورس کے لیے درخواست دی تھی جس کی بدولت میں کم از کم ایک ماہ کے لیے کسی نقصان سے بچی رہوں گی۔

سیّدہ عابدہ حسین کی کتاب ”اور بجلی کٹ گئی“ سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).