تین زاویے، تین بیانیے، تین حلقے


نہ اِس کروٹ چین ہے نہ اُس کروٹ چین ہے۔ زندگی دُکھوں، مصیبتوں اور مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ قلم کی نوک سے نکلے ہوئے الفاظ پل بھر میں خوشیوں کی لڑیاں پروتے ہیں، تو پل بھر میں مسائل و آلام کا انبار اور پہاڑ کھڑے کردیتے ہیں۔ کہیں پہ دھکم پیل ہے، تو کہیں پہ دھینگا مشتی؛ کہیں دشنام طرازی ہے، تو کہیں گالم گلوچ۔ ایک سمت میں نہ سوچ کا محور ہے اور نا ہی شعور کی منزل۔ بس شتر بے مہار کی طرح پوری قوم الگ الگ راستوں پر اور بھانت بھانت کی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے۔

ایک حلقے کو لگتا ہے کہ موجودہ حکومت ہر مسئلے کو درجہ بدرجہ حل کرے گی اور ملک و قوم کی تقدیر سنور جائے گی۔ اس حلقہ کو زعم ہے کہ خان صاحب کی شخصیت کے تمام تر پہلو پاکستان کی ترقی اور بقاء کے لئے متحرک ہیں اور بعید نہیں کہ پاکستان ایک دن ترقی یافتہ اور مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے گا۔ اس حلقے کے بعض جوشیلے اراکین سمجھتے ہیں کہ سابق دو حکومتوں نے بڑے عرصے تک حکمرانی کی ہے اور بقول ان کے، کہ انھوں نے، نہ مسائل کا ادراک کیا اور نا ہی ملک و قوم کی نیا پار لگائی۔

اس حلقے کے جذباتی کارکن کہتے ہیں، کہ بیرونی قرضوں سے ملکی معیشت کو سہارے دینے کے دعوے صرف کاغذی تھے۔ جس قدر بھی قرضے وصول کیے گئے وہ تمام بد عنوانی کے نذر ہو گئے۔ ہر ایک نے ہاتھ صاف کیا اور اُن قرضوں سے رشتے ناتوں کی خوب آب یاری کی گئی؛ اپنی ذات سے باہر نکلنے کی کو کوشش بھی نظر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کا بچہ بچہ بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی قرضے کی ہتھ کڑی پہنے دُنیا میں آتا ہے۔ یہ دُکھ بھری داستان یقیناً المیہ اور قومی سانحے سے کم نہیں۔

ایک اور حلقے کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل جو بھی باتیں کی گئیں اور وعدے ہوئے وہ سب کے سب زبانی کلامی تھے؛ عملاً کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ مثلاً اس حلقے کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل خان صاحب نے کہا تھا کہ یمن کے معاملے میں ہم غیر جانب دار رہیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ میں ہوئی ووٹنگ میں پاکستان نے حامی ووٹ کی ادائیگی کے ساتھ یہ باور کرایا کہ اس کا جھکاؤ کس کی جانب ہے۔ ایک اور اعلامیہ جاری ہوا تھا کہ حکومت ملنے کے بعد چار مہینے تک وزیر اعظم غیر ملکی دوروں پر نہیں جائیں گے، لیکن جمعہ جمعہ آٹھ دِن نہیں ہوئے تھے، کہ عمران خان نے سعودی دورے سے مستفیض ہوتے ہوئے دبئی کی دہلیز چھو لی اور وہ وعدہ کہ جس میں ایک مختصر وقت تک دورے نہ کرنے کا کہا گیا تھا، وہ بھی وفا نہ ہوا۔

تیسری اہم بات کہ جس پر ما بعد الذکر حلقے کو سب سے زیادہ اعتراض ہے، وہ یہ کہ عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف سمیت کسی بھی بیرونی ادارے سے قرضہ نہ لینے کا اعلان ہوا تھا، وہ بھی ہوّا ہوا۔ اب حکومت نے با ضابطہ اعلان کیا ہے کہ وہ قرضے کے حصول کے لئے، آئی ایم ایف کے پاس جائے گی۔ مخالف حلقہ مندرجہ بالا تین نکات کو مرکزِ طنز بنا کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔

ایک وہ حلقہ بھی ہے، کہ جسے عوام کہتے ہیں۔ سب سے زیادہ بدنصیب حلقہ یہی ہے۔ یہ قتل بھی ہو رہا ہے، مسائل و مشکلات کا سامنا بھی کر رہا ہے، قرضوں اور بدعنوانیوں کا متاثر بھی یہی ہے۔ اب کسی کو کیا فرق پڑتا یے کہ اس حلقے میں شامل بعض انسان کبھی تو کراچی میں قتل ہو رہے ہیں، کبھی کوئٹہ میں تو کبھی پنجاب اور کے پی کے میں۔ مرنا اور پھر اسیری کا سامنا کرنا اس حلقہ کا اکلوتا کام رہ گیا ہے۔

یہ بات ہضم بھی کی جا سکتی ہے کہ مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ ملک کو گرداب سے نکالنے کے لئے کیا گیا ہے لیکن یہ بات کیسے ہضم ہو کہ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ حکومت بنانے کا جو عمل شروع ہوا تھا اُس میں تبدیلی کی کوئی رمق بھی محسوس نہیں ہوئی۔ پاکستان جوں کا توں رہا۔ مظلوم کی دادرسی کی کیفیت وہی کی وہی رہی، سیاسی پروٹوکول کی کشش اب بھی بھلی لگتی ہے۔ نہ کفایت شعاری مہم میں کوئی دل چسپی پیدا ہوئی اور نا ہی کابینہ اراکین میں کوئی اخلاقی بدلاؤ آیا۔

معترضین ضرور کہیں گے کہ ابھی موقع دو۔ چلیں جی ہم نے موقع دیا اور اُمید بھی رکھیں گے کہ موجودہ حکومت کچھ کر گزرنے کی پوزیشن میں آجائے۔ جو باتیں اور وعدے عمران خان صاحب نے کیے ہیں وہ سب وفا ہوں اور پاکستان اوجِ ثریا کو چھو لے۔ یہی ہماری آرزو ہے، خواہش ہے، تمنا ہے اور دُعا گو بھی ہیں کہ اللہﷻ میرے ملک کو بدمعاشوں، چوروں، بد عنوانوں، دہشت گردوں، جھوٹوں اور بے عملوں سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).