شیر، بلی اور ڈائنوسار – نئے زمانے کی نئی کہانی


اگلے زمانوں میں بزرگ ہمیں ایک کہانی سنایا کرتے تھے جس میں ایک جنگل ہوتا تھا۔ اس جنگل کا ایک عدد بادشاہ بھی تھا۔ اس بادشاہ کو شیر کہتے تھے۔ وہ شیر اصلی اور نسلی ہوتا تھا۔

پھر ایک بلی بھی ہوتی تھی جو شیر کی خالہ لگتی تھی اور شیر کو مختلف داؤسکھاتی پھرتی تھی۔ یہ سکھائے گئے داؤ کون کون سے تھے ان کی تفصیل میں ہمارے بزرگ کبھی نہیں گئے۔ بس اتنا کہ کر قصہ آگے بڑھا دیتے تھے کہ بلی نے شیر کو تمام داؤ سکھا دیے تھے۔

البتہ جو ایک داؤ دوراندیش خالہ جان نے غیر عزیز از جان بھانجے کو نہیں سکھایا تھا اس کو خوب تفصیل سے بلکہ مزے لے لے کر بتایا جاتا تھا۔ وہ داؤ درخت پر چڑھنا تھا جس کی مدد سے بلی نے شیر سے اپنی جان بچائی تھی۔

یہ کہانی اب پرانی ہو گئی ہے۔ اب اس کہانی کو نئے زمانے کے تناظر میں تجدید کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس کہانی کا نظر ثانی شدہ ”ورژن“ آپ کے مطالعے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ نئے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک جنگل تھا۔ اور جنگل میں ظاہر ہے جنگل کا قانون ہی رائج ہوتا ہے۔ پرانی کہانی میں شیر جنگل کا بادشاہ تھا۔ بادشاہ مطلق العنان یعنی آمر ہوتا ہے۔ اگلےوقتوں میں جنگل کے حیوانات کو سیاسی اور جمہوری نظام کے ”فوائد“ معلوم نہیں تھے اس لیے ان کو آمریت پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ موجودہ دور جمہوریت کا دور ہے۔ جمہوریت نام کی بھی ہو تب بھی اس میں آمریت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس جنگل میں مگر جنگل کا قانون چلتا تھا اس لیےاصل اقتدار اسی کے پاس ہوتا تھا جو طاقتور ہوتا تھا۔

نئی کہانی میں بھی ایک عدد شیر تھا۔ زمانہ چونکہ بہت بدل چکا ہے لہٰذا شیر بھی اب اکیلا نہیں رہا۔ ہم یوں کہہ لیتے ہیں کہ نئی کہانی میں شیروں کا پورا ایک گروہ تھا۔ نئی کہانی میں جنگل کے حیوانات ان شیروں سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان سے ”فوائد“ حاصل کرتے تھے۔

پرانی کہانی میں شیر اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جانوروں کو کھا جاتا تھا۔ نئی کہانی میں شیر وں کا اول تو پیٹ ہی نہیں بھرتا تھا مگر جو تھوڑا بہت بھرتا تھا اس کے لیے ان کا اکتفا حیوانات کے بجائے جمہوریت کے ”فوائد“ پر تھا۔ شیروں کے اس گروہ کا سربراہ بھی ایک شیر ہی تھا۔

شیر اور بلی کی نئی کہانی میں شیر ہو اور بلی نہ ہو ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر چونکہ نیا زمانہ اور نئی کہانی ہے لہٰذا اس کہانی میں بلی کا بھی پورا ٹبر تھا اور ان کا گذارا بھی جمہوریت کے ”فوائد“ پر ہی تھا۔

اس ٹبر کا سربراہ بلی نہیں بلکہ بلا تھا۔ مگر ہم پرانی کہانی سے اظہار یکجہتی کے طور پر بلیوں کے اس ٹبر کو مجموعی طور پر بلی ہی کہیں گے۔

چونکہ یہ ایک ”طے شدہ امر“ ہے کہ بلی شیر کی خالہ ہے اور ”طے شدہ امور“ کو چھیڑا نہیں کرتے لہٰذا اس بلی کو بھی شیر کی خالہ ہی ماننا پڑے گا۔ جو لوگ بلی کو شیر کا خالو ماننا چاہیں وہ بے شک مان لیں مگر اس کہانی میں بلی شیر کی خالہ ہی لکھی جائے گی۔

نئی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ جنگل میں شیر، بلی اور دیگر حیوانات چاہے مل جل کر نہ سہی مگر رہتے ضرور تھے۔ شیر کو زیادہ داؤ پیچ اس کہانی میں بھی نہیں آتے تھے اور بلی شیر کو آگے لگائے رکھتی تھی۔

خالہ اور خالہ کا بھانجہ آپس میں دیرینہ خاندانی رنجش کی وجہ سے شیر و شکر نہیں تھے۔ لہٰذا اکثر ان میں جھگڑا ہی رہتا تھا۔ دونوں ہمہ وقت ایک دوسرے کی تاک میں رہتے کہ کسی طرح مخالف فریق کا پتہ صاف کیا جا سکے۔ کبھی بلی کا داؤ چل جاتا تو کبھی شیر کامیاب ہو جاتا۔

نئی کہانی میں ایک نیا کردار بھی ہے۔ ہم اس کو ڈائنوسار تصور کر لیتے ہیں۔ ڈائنوسار اس جنگل میں رہ تو شروع سے رہا تھا مگر اسے اپنی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ بہت بعد میں جا کر ہوا۔ جب ڈائنوسار کو معلوم ہو گیا کہ وہ اس جنگل میں سب سے طاقت ور ہے تو اس نے جنگل پر قبضہ کر لیا۔

ڈائنوسار جب اقتدار پر قابض ہو گیا تو شیر اور بلی دونوں کو پریشانی ہوئی۔ اپنے پیٹ پر لات کوئی بھی برداشت نہیں کرتا۔ جمہوریت کے ”فوائد“ ملنا بند ہو گئے تو شیر اور بلی کو اپنا پرانا رشتہ یاد آ گیا اور انہوں نے ازسرنو رشتہ داری استوار کرنے کا فیصلہ کیا۔ شیر اور بلی کی مفاہمت کی وجہ سے ڈائنوسار کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

ڈائنوسار بھی مگر ہوشیار تھا۔ اس نے جنگل کے ایک مضبوط درخت کی لکڑی سے ایک ڈنڈا تیار کیا۔ جنگل کے باسی ڈنڈے کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں تھے لہٰذا ڈنڈے کو قابلِ قبول بنانے کے لیے بَلے کی شکل دی گئی۔

جب بلے کی شکل میں ڈنڈا برسنا شروع ہوا تو شیر اور بلی سٹپٹا گئے۔ اپنی بقا کی جنگ میں میں بلی سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی اور بلی نے شیر کو وہ آخری داؤ بھی سکھا دیا جو اس کی بقا کا ضامن تھا۔ جب شیر نے بلی کے تمام داؤ پیچ سیکھ لیے تو شیر بلی پر حاوی ہوتا چلا گیا۔ بلی اپنی بقا کی خاطر نیچے لگتی چلی گئی۔ شیر بلی پر اس قدر حاوی ہو گیا کہ بلی شیر کی خالہ کی بجائے شیر کی زوجہ لگنے لگی۔

شیر اپنے زعم میں بہت طاقتور ہو گیا اور اب اس نے ڈائنوسار سے پنگا لے کر انتقام لینے کی ٹھانی۔ ڈائنوسار مگر ڈائنوسار ہوتا ہے۔ اس نے بلا برسانا شروع کر دیا۔ وہ چوکے چھکے لگے کہ شیر زخمی ہو کر گر پڑا۔

شیر نے گرنے کے بعد ایک بار پھر بلی کی طرف دیکھا اور رشتہ داری کی دہائی دی۔ بلی اپنے تمام داؤ شیر کو سکھا چکی تھی چناچہ بلی نے جواب میں نخرہ دکھانا شروع کر دیا۔

نئے دور کی اس نئی کہانی میں بلی اپنے تمام داؤ کھیل کر کنارے لگ چکی۔ شیر ڈائنوسار سے انتقام لینے کے چکر میں پڑ گیا اور اب زخمی پڑا کراہ رہا ہے۔ جبکہ ڈائنوسار نے بلا برسانے کا کامیاب داؤ سیکھ لیاہے۔

سبق: پرانی کہانیوں میں ایک کہانی میں ایک سبق ہوا کرتا تھا۔ نئی کہانی کیونکہ نئے زمانے کی ہے اس لیے اس میں تین پرانے اور تین نئے اسباق ہیں۔

تین پرانے اسباق: اتفاق میں برکت ہے۔ جیسے کو تیسا اور انتقام لینے سے معاف کرنا بہتر ہے۔
تین نئے اسباق: ڈائنوسار کو بلا برسانا آتا ہے۔ شیر اب جنگل کا بادشاہ نہیں رہا اور یہ کہ بلی اب شیر کی خالہ نہیں ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad